علم ہئیت اور قرآن

اشاعت جون2006

کچھ مسلمان کہتے ہیں کہ سورج، چاند( اور بعض اوقات سیاروں) کے مداروں کی بابت قرآن سائنس کی سچائی پر مشتمل ہےمیں اس کی چھان بین کرنے میں دلچسپی رکھتا تھا، اور ہم نتجے پر پہنچنے سے پہلے چند بل دار چکر لگاتے گئے۔ لیکن اصل حقیقت یہ ہے: جب تک ایک مسلمان نے ان آیات کو دیکھ نہیں لیا، جیسا کہ ظاہراً زبان سے، یہ آیات تردید کرینگی، یعنی قرآن کے سائنسی اعتبار سے درست ہونے کو ثابت نہیں کرینگی۔

سورۃ36 آیت36 سے 39 یوں کہتی ہے، اور ان کے لیے ایک نشانی رات ہے ہم اس پر سے دن کھنچ لیتے ہیں جبھی وہ اندھیروں میں ہیں؛ 37 اور سورج چلتا ہےاپنے ایک ٹھہراو کے لیے یہ حکم ہے زبردست علم والے کا۔38 اور چاند کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کیں( ایک سرے سے دوسرے سے تک) یہاں تک کہ پھر ہو گیا جیسے کھجور کی (سوکھی ہوئی) پرانی ڈالی۔39 سورج کو نہیں پہنچتا کہ چاند کو پکڑ لے اور نہ رات پر سبقت لے جائے۔ اور ہرایک (بالکل) گھیرے میں (اپنے ہی ) پیر رہا ہے ( شریعت کے مطابق)(یوسف علی کی اصل تصنیف کے ترجمہ میں) [جو الفاظ قوسین میں ہیں وہ ترجمہ میں بھی قوسین میں ہیں]

کچھ مسلمان بتاتے ہیں "کہ سورج مقرر کئے گئے ایک عرصہ کے لیے اپنے مدار میں بھاگتا ہے" اور لفظ"مدار" کو آخر پر بیان کرتے ہیں۔ تاہم، ہم "مدار" کی بابت زیادہ اور کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ یوسف علی کے ترجمہ میں حاشیہ (17 میں) اس لفظ کو یوں کہا جا رہا ہے "دائرہ، راستہ" مزید براں، یوسف علی کی نظر ثانی تصنیف اس کو "عرصہ " کی بجائے آرام دہ جگہ کہتی ہے۔

کتنی آزادی سے مسلمان قرآن کا ترجمہ کرتے ہیں؟ صوفی سائیٹ

http://www.sufi.co.za/modern.sciene_and_islam.htm.

مزید یوں بیان کرتی ہے"تمام زمین اور آسمانی اجسام( اُن  میں سب سیارے ہیں) اور اپنے مداروں میں ہر وقت( یا اپنے خط پر) حرکت میں ہیں یہ بے مقام دائرے ہیں"(انصاری)

یہ ان الفاظ کا قوسین میں اضافہ کرتی ہے یعنی( ان میں سب سیارےہیں اور (یا اپنے خط پر)، کیونکہ یہ بالکل بھی عربی میں نہیں ہے۔ پس اس کو بُرا ترجمہ خیال کرتے ہوئے رد کرتے ہیں، اور پوچھتے ہیں، کہ حقیقت میں سورۃ36 اس کی 36 سے 39 آیت کیا تعلیم دیتی ہے۔ یہ تین ممکن الوقوع ہونے کی صورتیں ہیں:

          سورج اور چاند کے مدار:

 قرآن نے تعلیم دی کہ سورج اور چاند مسلسل زمین کے گرد ایک خاص مقرہ مدار یا راستہ میں گردش کرتے ہیں۔

اپنی آرام دہ جگہ میں پھرتے ہیں:

سورج دن میں آسمان پر پھرتا ہے، اور رات کے وقت اپنے آرام دہ جگہ میں چلا جاتا ہے، یعنی اپنی پچھلی صبح والی جگہ پر چلا جاتا ہے۔ بالکل ویسے چاند اپنے راستے پر پھرتا ہے۔

          ظاہراً زبان:

بالکل پہلے کی طرح،لیکن یہ نیت ہوتی ہے کہ کیسے ظاہراً چیزوں کو بیان کریں، نہ کہ حقیقت میں یہ کیسی ہیں۔

آیئے عربی پر واپس چلتے ہیں۔

راستہ/ مدار:

یوسف علی صفحہ نمبر 1326 پر حاشیہ 3983 میں عربی لفظ کو سوال کی صورت میں بیان کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے،" مُتستَقَتیر شاید مطلب یہ ہے: (1) وقت کی حد، متعین عرصہ، جیسا کہ والیم 67 میں، یا (2) آرام کی جگہ یا بے حِسحا؛ یا(3) قیام کی جگہ ، جیسا کہ 11۔ 36۔ میرے خیال میں یہاں پر پہلے مطلب کا درست اطلاق ہوتا ہے؛ مگر کچھ تصبرہ نگار دوسرے مطلب کو لیتے ہیں۔ اس معاملہ میں تشبیہ یوں ہو گی کہ سورج ایک دوڑ دوڑ رہا ہے  جبکہ ہم اس کو دیکھتے ہیں، اور رات کو آرام کرتا ہے تاکہ آنے والے دن میں دوبارہ اپنے آپ کو دوڑ کے لیے تیار کرے۔ اس کا مخالف قطب پر قیام ہمیں یوں لگتا ہے جیسے کہ اس کا آرام کا وقت ہو"۔

 گھومنا/ پھرنا/ چکر لگانا:

یَّسُجَون کا مطلب ہو سکتا ہے تیزی سے آگے بڑھنا، اگرچہ اس کا براہ راست مطلب تیرنا ہے۔

تیرنا/ چکر لگانا:

مشہور حلم تبصرہ نگار ابن تمسیا (وفات 1328 بعد از مسیح) نے یوں لکھا فلکیاتی اجسام گھول ہیں( استدارا الفلک) جیسا کہ ماہر فلکیات اور ریاضی دانوں کا بیان ہے (اھلول الحساب) لفظ فلک کا [عربی زبان میں] مطلب ہے گھول۔ (مجموعہ الفتری والیم 6 صفحہ نمبر 566-567)

یہ سائنسی معجزہ نہیں ہے کہ سورج اور چاند "فلک " ہیں کیونکہ

1:عربی اصطلاح میں زمین کا سورج کے گرد گھومنا فلک نہیں بلکہ محرک ہے۔

2: لفظ فلک نے قرآن کے ساتھ آغاز نہیں کیا تھا یہ دوسری زبان سے مستعار (ادھار) لیا گیا لفظ تھا۔

"ایک شخص نے مزید ان باتوں میں معاونت کی:[ عربی لفظ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فلکہ] کی بنیاد ٹھیک وہی پرانی سامی بنیاد سے ہے جس کو ہم [اکتذہن۔۔۔۔۔۔۔۔ پپلاں کُو] [عبرانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پیلک] ؛ [عربی ۔۔۔۔۔ فلکاتن] سب کا مطلب محور کا چکر ہے، اور طرف سے مشتق[ عربی۔۔۔۔۔۔۔ فلاکن]؛               [ایتھوپیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فلکہ] کے لیے فلکیاتی خط استوار ہے۔ پس لسانیت والے جیسا کہ اس بنیاد سے [ عربی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فلکن] اصولی جدوجہد کرتے ہوئے نکالتے ہیں؛ تصور کرتے ہوئے کہ اس کی گھول شکل پر اس کو یہ نام دیا جائے"۔                                                             

 توبھی لفظ فلک عربی لوگوں نے محمد کے وقت سے پہلے، آسمانی گنبد میں فلکیاتی اجسام کے سفر کرنے کا حوالہ دینے کے لیے استعمال کیا تھا۔ محمد سے پہلے اور محمد کے وقت کے لوگ افلاطون/ ارسطو کے کائناتی قاعدوں پر یقین رکھتے تھے جس میں زمین مرکز تھی اور است خطی گنبدوں سے گری ہوئی تھی۔ اور ایمان رکھا جاتا تھا کہ یہ فلکیاتی اجسام ان خط استواروں میں گھومتے ہیں، یا ایمان رکھا جاتا تھا کہ یہ خطوط بذات خود ایک راستہ میں گھومتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ قرآن سات آسمانوں کی بات کرتا ہے قوی طور پر رائے دیتا ہے  کہ محمد کی علم ہیت ارسطو اور افلاطون کے قاعدوں پر پورا اترتی ہے ، جو تاریخ کے اس نقطہ پر درست مانے جاتے تھے۔

میرا نتیجہ ( یونہی سا):

جبکہ عربی مبہم ہے، تو بھی ان الفاظ نے محمد سے پہلے قدیم لوگوں نے جو کہا تھا اس سے بڑھ کر کچھ نہ کہا۔

تاہم، اگر ہم فرض کرتے ہیں کہ محمد اور اس کے ابتدائی پیروکار قرآن کو سمجھتے تھے( ایک درست مفروضہ) اور قرآں کا سائنسی نظریہ بالکل متوازی ہے، تو پھر حتمی نتیجہ اخذ کرنے کے لیے ہمارے پاس دو طریقے ہیں۔ پہلا، ابتدائی مسلمانوں نے اس کی بابت کیا کہا، اور دوسرا، باقی قرآن کیا کہتا ہے؟ محمد اور ابتدائی مسلمانوں نے سورج کی بابت کیا کہا؟

آپ قرآن کے درست مطلب کو تلاش کرنے کے لیے کہاں جائینگے؟ زمکاشرعی؟ الطبری؟ بدوّی؟ اگر آپ ایک ابتدائی مسلم ہوتے، تو آپ خود محمد کے پاس جاتے! یہاں محمد نے بخاری اور الطبری کے مطابق یوں وضاحت کی تھی۔

ابودہر سے روایت ہے: غروب آفتاب کے وقت نبی نے مجھ سے پوچھا، "کیا تمہیں معلوم ہے کہ ( شام ہونے کے بعد ) سورج کہاں جاتا ہے؟ میں نے جواب دیا، اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتا ہے۔ آپ نے کہا، یہ تخت کے نیچے اطاعت کے لئے (یعنی سفر کرتا) چلا جاتا ہے، اور دوبارہ اٹھنے کی اجازت لیتا ہے، اور اس کو اجازت دی جاتی ہے اور پھر(ایک وقت آئیگا جب) کہ یہ خود اطاعت کرنے لگا ہو گا مگر اس کی اظہار اطاعت قبول نہ ہو گی۔۔۔۔"۔ بخاری والیم4 کتاب54 باب4 عدد 441 صفحہ نمبر283۔

البخاری کا ایک اور ترجمہ اسی پیرے کی بابت یوں کہتا ہے:

ابو ذر غفاری بیان کرتے ہیں: ایک دن نبی محمد نے مجھ سے پوچھا، ابوذر کیا تمہیں معلوم ہے کہ سورج غروب ہونے کے بعد کہاں جاتا ہے؟ میں نے جواب دیا مجھے نہیں معلوم، صرف اللہ اور اس کا رسول بہتر جان سکتا ہے، پھر محمد نے جواب دیا، غروب آفتاب کے بعد سورج اللہ کے عرش( اللہ کے تخت) پر اوندھے منہ پڑا رہتا ہے۔ اور مشرق سے دوبارہ نکنے کے لیے اللہ کے حکم کا انتظار کرتا رہتا ہے۔ وہ دن آئے گا جب سورج اللہ سے مزید دوبارہ نکلنے کی اجازت نہیں لے گا اور قیامت (سزا کا دن ) زمیں پر آئے گی۔

الطبری والیم1، صفحہ 231 یوں کہتا ہے، میں نے اللہ کے رسول( محمد) سے پوچھا،" یہ (سورج) کہاں غروب ہوتا ہے؟ آپ نے جواب دیا یہ آسمان میں غروب ہوتا ہے اور پھر آسمان سے نکل کر آسمان تک جاتا ہے جب تک کہ یہ ساتویں آسمان تک بلند نہیں ہو جاتا۔ آخر کار، جب یہ تخت کے نیچے جاتا ہے، یہ جھک جاتا ہے اور خود اطاعت کرتا ہے، اور فرشتے جو اس کے نگران ہوتے ہیں خود اس کے ساتھ مل کر اطاعت کرتے ہیں۔ پھر سورج کہتا ہے، میرے خداوند، تو کب مجھے نکلنے کو حکم دیتا ہے، کہ میں کہاں سے غروب ہوں اور کہاں سے نکلوں؟ آپ نے کہنا جاری رکھا۔ یہ (مطلب ہے ) خدا کا کلام ہے: اور سورج: یہ اس جگہ کی طرف بھاگتا ہے جہاں پھر (رات کے وقت) قیام کرتا ہے یہاں یہ تخت کے نیچے ہوتا ہے۔ یہ حکم ہے بڑے زبردست علم والے کا۔ جس کا مطلب ہے "خداوند اور اس کے شاہی اختیار کی طاقت کا طریقہ کار، یعنی وہ خداوند جو اپنی مخلوق کی بابت "علم" رکھتا ہے آپ مزید بات جاری رکھتے ہیں۔ دن کے گھنٹوں کے پیمانہ کے اعتبار سے جبرائیل نور تخت سے سورج کے لیے چمکتا ہوا لباس لے کر آتا ہے۔ یہ گرمیوں میں لمبا اور سردیوں میں چھوٹا ہوتا ہے، اور بہار اور خزاں میں درمیانہ ہوتا ہے [ بہار کا آنا اور سردیوں کی ملبوسات!] آپ مزید کہنا جاری رکھتے ہیں۔ سورج اس لباس کو اوڑھتا ہے،جیسا کہ تم نے یہان اپنی پوشاک کو پہنا ہے۔ پھر اس کے بعد، اس کو آسمان کی فضا میں گھومنے کے لیے آزاد کیا جاتا ہے جب تک یہ پھر وہی سے طلوع نہیں ہو پاتا جہاں سے یہ ہوتا ہے۔۔۔۔ چاند بھی نکلنے میں یہی طریقہ اپناتا ہے۔۔۔۔ لیکن جبرائیل بیٹھنے والے تخت کے نور سے اس کے لیے لباس لے کر آتا ہے۔ یہ (جس کا مطلب) خدا کا کلام ہے۔ اس نے سورج کو چمکتا ہوا اور چاند کو روشن بنایا"۔

سورج اور چاند اللہ کی نشانیاں ہیں ابو داود والیم1 کتاب2 عدد1137 صفحہ نمبر 304۔ سنان سائی والیم2 عدد۔1462، 1464 صفحہ نمبر 272 والیم 2عدد 1465، 1466 صفحہ 273؛ والیم2 عدد 1475 صفحہ 278۔ والیم 2عدد 1477 صفحہ 280 والیم 2 عدد 1481 صفحہ 283؛ والیم 2 عدد 1485-1486 صفحہ 286-287؛ والیم 2عدد 1488-1489 صفحہ 287، 289؛ والیم عدد 1500 صفحہ 297 والیم 2 عدد 1502 صفحہ 299؛ والیم 2 عدد 1505 صفحہ 300؛ والیم 2عدد 1506 صفحہ 301

دھوالقرنین [ذوالقرنین] گواہی دی کہ سورج کالی اور متعفن دلدل کے حوض میں اپنی آرام کی جگہ پر غروب ہوتا ہے" الطبری والیم 5 صفحہ 173-174 (دیکھیےسورۃ 18: 82 سے 87 آیت) الطبری والیم1 صفحہ 234 بھی بیان کرتا ہے کہ سورج گدلے چشمے میں غروب ہوتا ہے۔ لفظ "گدلہ" "ہمیہ" ہے جس کا مطلب ہے کالی مٹی، مگر ہمایہ وہی لفظ ہے جس کا مطلب گرم ہو سکتا ہے ( دیکھیے حاشیہ442 صفحہ 134)

آپ (محمد) جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں۔ جب سورج نکلتا ہے، تو یہ ان چشموں میں ایک سے  جس کے ہمراہ 360 فرشتے ہوتے ہیں اپنے رتھ کے ساتھ نکلتا ہے۔۔۔۔۔۔ جب خدا سورج اور چاند کو آزمانے کی خواہش کرتا ہے، تو اپنمے خادموں کو نشان دکھاتا ہے اور پھر ان سے سوال کرتا ہے کہ وہ اس کی حکم عدولی کرنا بند کریں اور اس کا حکم بجا لائیں۔ تو سورج رتھ سے اوندھے منہ گر پڑتا ہے اور اس گہرے سمندر میں گر پڑتا ہے، جو خط استوا ہے جب خدا اس نشان کی اہمیت کو بٹھانا اور اپنے خادموں کو سخت ڈرانا چاہتا ہے ، تو سورج گر پڑتا ہے اور رتھ پر اس کا کچھ بھی باقی نہیں بچتا۔ یہ مکمل سورج گرہن ہے، جب دن تاریکی میں بدل جاتا ہے اور استارے نکل آتے ہیں"۔ الطبری والیم1 صفحہ 236۔

محمد اور ابتدائی مسلمان ہمیں آسمانوں کی بابت کیا بتاتے ہیں:

نبی (محمد ) نے جواب دیا: علی، وہ پانچ ستارے ہیں: مشتری (البرجس) زحل ( زحل) عطارد ( عطارد) مریخ ( بحرم) اور زہرہ (الذہرہ) یہ پانچ ستارے سورج اور چاند کی طرح نکلتے  اور بھاگتے ہیں اور ان کے ساتھ مل کر دوڑتے ہیں۔ باقی تمام ستارے آسمان سے خارج ہیں جیسا کہ مسجدوں سے چراغ ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔، " الطبیر واسلیم1 صفحہ 235-236

خدا نے آسمان سے دور(18 کلو میٹر) تین فسارکھ پر ایک سمندر تخلیق کیا، اس میں لہریںہیں، اور خدا کے حکم سے یہ فضا میں کھڑا رہتا ہے۔ اس کا ایک بھی قطرہ نہیں گرتا۔ سارے سمندر بے حس ہیں، مگر یہ سمندر تیر کی تیزی کی طرح بہتا ہے۔ اس کو فضا میں گھومنے کی اجازت ہے، جیسے کہ یہ ایک ایسی رسی ہو جو مشرق سے مغرب کے درمیانی علاقے میں پھیلائی جاتی ہے۔ سورج، چاند اور معکوس ستارے( 5سیارے) اپنے گرد حجم میں چلتے ہیں۔ یہ (جس کا مطلب) خدا کا کلام ہے: ہر ایک دائرہ کار میں تیرتا ہے۔ دائرہ کار اس سمندر کے گہرے حجم میں رتھ کی گردش ہے ۔ الطبری والیم1 صفحہ 235

ابتدائی مسلمانوں کی طرف سے نتیجہ: سورج ہو بہو رات کے وقت آرام دہ جگہ پر جاتا ہے، اور سورج اور زمین ہو بہو آسمان میں پانی کے سمندر میں "تیرتے" ہیں۔

باقی قرآن کیا کہتا ہے

غور کیجیے کہ اس آیت کے اعداد قرآن کے مختلف تراجم میں مختلف ہیں۔ آیت کے یہ اعداد اور حوالے یوسف علی (کی نظر ثانی تصنیف) سے ہیں۔ میں نے بڑے حروف کو درست کیا تھا۔ سورۃ 20:52 آیت" وہ جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا کیا"۔

سورۃ6:50آیت۔"اور زمین کو ہم نے پھیلایا اور اس میں لنگر ڈالے۔۔۔۔۔ "

 

یوسف علی کا حاشیہ 4946 یوں کہتا ہے

    اور عدد 1955۔ زمین گول ہے، اور پھر بھی یہ ایک بڑے وسیع xv.19   اورCF.xiii.3:  

قطعہ کی طرح پھیلی ہوئی دکھائی دیتی ہے اس قالین کی طرح جس پر بھاری پہاڑ کھڑے ہوں۔ اس بات سے قطعہ نظر کہ آپ زمین کے چپٹے ہونے یا نہ ہونے کی تعلیم پر یقین رکھتے ہیں، یوسف علی یوں کہتا ہے کہ ی آیت بلاخر یوں کہتی ہے کہ زمین کی صورت چپٹی ہے۔

سورۃ67 :14آیت " وہی ہے جس نے تمہارے لیے زمیں رام(تابع ) کردی ۔۔۔۔" دوسرے تراجم" ہموار" کہتے ہیں۔ یوسف علی حاشیہ 5517 کہتا ہے،جعل ii 71 میں ایک سدھائے جانور یا لچک دار کے لیے استعمال ہوتا ہے: یہاں پر یہ زمین کی قابلیت کے لیے استعمال ہوتا ہے، اور میں نے اس کا ترجمہ "آسانی سے قابو میں آنے والا" کیا ہے۔۔۔۔۔۔ سورۃ71:14 آیت " کیا تم نہیں دیکھتے اللہ نے کیونکر سات آسمان بنائےایک پر ایک اور ان میں چاند کو روشن کیا اور سورج چراغ؟" حتی کہ اس کو تسلیم کیا گیا ہے کہ یہ ظاہرا! زبان ہے، تو بھی اس میں علم ہیت کی تدریس کا کوئی اشارہ نہیں ہے۔ سورۃ 71: 18 آیت۔۔۔۔۔۔" اور اللہ نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا بنایا ( پھیلا دیا) یوسف علی کا حاشیہ 5718 یوں کہتا ہے۔ 53 xx۔CF

سورۃ78: 5 سے 6 آیت "کیا ہم (اللہ) نے زمین کو بچھونا نہیں کیا اور پہاڑوں کو سیخیں؟  یوسف علی کا حاشیہ 5890 یوں کہتا ہے، دیکھیے عدد 2038 سے xvi۔CF۔15 اور3۔iiix بھی اور۔ xv۔ زمین کا وسیع پن ایک بچھونے سے ناپا جا سکتا ہے، جس پر پہاڑ سیخیں کا کردار ادا کرتے ہیں۔

سورۃ18 میں ذوالقرنین اور علم ہیت کی سائنس۔ سورۃ 18:84 سے 85 آیت:" تو یہ ایک جیسا کہ سامان کے ( ذوالقرنین) پیچھے چلا  یہاں تک کہ جب سورج ڈوبنے کی جگہ پہنچا اسے ایک سیاہ کیچڑ کے چشمے میں ڈوبتا پایا اور وہاں ایک قوم ملی۔ ہم نے (اللہ ) فرمایا اے ذوالقرنین یا تو ( تیرے پاس اختیار ہے) تو انہیں عزاب دے یا ان کے ساتھ بھلائی اختیار کرے۔"سیاہ" کا ترجمہ "جدلہ" اور "کالا" کیا گیا ہے "پانی کا چشمہ" کا ترجمہ کو بھی "چشمہ" میں ترجمہ کیا جاتا ہے۔ ایم۔ ایچ شاکرنے اس کا "کالا سمندر" کے معنوں میں ترجمہ کیا ہے سورۃ18:88 سے 89 آیت میں " پھر ایک سامان کے پیچھے (ذوالقرنین) چلا گیا یہاں تک کہ جب سورج نکلنے کی جگہ پہنچا اسے ایس قوم پر نکلتا پایا جن کے لیے ہم سورج سے کوئی آڑ نہیں رکھی"۔

مسلم تبصرہ نگار ذوالقرنین ( دو سینگوں والا آدمی)کی حقیقت پر اختلاف رکھتے ہیں کہ وہ کون ہے۔کچھ کا خیال ہے سکندر اعظم، کچھ کے خیال میں فارس کا سیرس۔ اور کچھ کے خیال میں یمنی بادشاہ ہے۔ تو بھی کوئی مسلہ نہیںقطع نظر، ذوالقرنین اس قابل تھا کہ حقیقت میں جہاں سے سورج نکلتا تھا وہ وہاں جا سکتا تھا۔ یہ بات قرآن میں موجود زمین کے چپٹے ہونے کے کائناتی علم کو تقویت دیتی ہے۔ مزید شاندار انداز میں، وہ وہاں گیا جہاں سورج غروب ہوتا ہے۔ اگر ہن علم ہیت کے ماہرین سے پوچھیں کہ کیا سورج سیاہ کیچڑ والے چشمے میں غروب ہوتا ہے، تو وہ آپ کو کہینگے "نہیں"

نتیجہ:

 قرآن مندرجہ زیل باتوں کی تعلیم دیتا ہے:

امین چپٹی ہے، اور بچھونے کی مانند ہے جس پر پہاڑ چپٹی کی صورت میں کیلوں کی طرح لگائے گئے ہیں۔

سورج دن میں ایک واضح راستہ دکھاتا ہے۔  پھر ایک سیاہ کیچڑ والے چشمے میں غروب ہوتا ہے اور اللہ کے تخت کے پاس جاتا ہے۔

پھر سورج ایک خاص مقام سے طلوع ہوتا ہے۔ سوائے پانچ معکوس ستاروں کے (سیاروں) ستارے چراغوں کی مانند لٹکے ہوئے ہیں

محمد نے ابتدائی مسلمانوں کو یہ تعلیم دی کہ یہ حقیقی سچائی ہے  نہ کہ کوئی استعارہ یا تشبیہ ہے۔

ستاروں اور شہاب ثاقبوں کا مقصد "اور بے شکے ہم نے نیچے کے آسمان کو چراغوں سے (ستاروں) آراستہ کیا اور انہیں (چراغوں) شیطان کے لیے مار کیا اور ان کے لیے بھڑکتی آگ کا عذاب تیار فرمایا"۔ سورۃ 67 آیت 4 ۔

"ان ستاروں کی تخلیق کے تین مقاصد ہیں، یعنی کہ آسمان کی سجاوٹ، شیطانوں کے لیے مار، اور مسافروں کے لیے رہنما نشان۔ پس،اگر کوئی ان کی مختلف تفسیر تلاش کرتا ہے تو وہ غلظی پر ہے اور محض بے سود کوشش کرتا ہے "۔ بخاری والیم4 کتاب 54 باب 3 عدد 421 سے پہلے صفحہ 282

شہاب ثاقب بعض اوقات ان شیطانوں کو پھینک مارتے ہیں جو آسمانی بھیدوں کو سننے کی کوشش کرتے ہیں صحیح مسلم والیم1 کتاب 4 عدد 902 اور حاشیہ 674 صفحہ 243۔

شہاب ثاقب ان ( برے ) نشانا بناتے ہیں کہ جو کچھ انہوں نے سنا کہیں پھیلا نہ دیں۔ بعض اوقات برے فرشتے پیشن گو کو نشانہ بننے سے پہلے بتا دیتے ہیں۔ ابن ماجہ والیم 1 کتاب 1 عدد 194 صفحہ 110۔

شہاب ثاقبوں کو جنات پر حملہ کرنا ہے صحیح مسلم والیم 4 کتاب 24 عدد 5583 صفحہ 1210

ستارے شیطان کے خلاف محافظ ہیں۔ الطبری والیم 1 صفحہ 223۔

 

محمد کا چاند کے دو ٹکڑے کرنا

کافروں نے محمد سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کو معجزہ دکھائے۔ محمد نے ان کو چاند کے ٹکڑے کر کے دکھایا۔ عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے: نبی نے اپنی زندگی میں چاند کے دو ٹکڑے کئے اور پھر ان پر یوں فرمایا، پکی گواہی دو ( اس کی) بخاری والیم4کتاب56باب26 اور والیم4 کتاب 56 باب 26 عدد 830 صفحہ 533

اُنس بیان کرتے ہیں کہ مکہ کے لوگوں نے اللہ کے رسول سے درخواست کی کہ وہ ان کو معجزہ دکھائے اور اس پر آپ نے انہیں چاند کے دو ٹکڑے کر کے دکھایا بخاری والیم4 کتاب 56 باب 26 عدد 831 صفحہ 533۔

ابن عباس سے روایت ہے: محمد نے اپنی زندگی میں چاند کے دو ٹکڑے کئے۔ بخاری والیم 4 کتاب 56 باب 26 عدد 832 صفحہ 534 چاند کے ٹکڑے کرنا ۔ بخاری والیم6 کتاب 60 باب 225 عدد 290 صفحہ 273 اور حاشیہ 1 صفحہ 273؛ والیم6 کتاب 60 باب 287 عدد 387 سے 391 صفحہ 365 سے 366 ؛ والیم 6 کتاب 60 باب 261 عدد 345 صفحہ 331۔ بخاری والیم 6 کتاب 6 چاند کے ٹکڑے کرنا صحیح مسلم والیم 4 کتاب 37 عدد 6721،  6724 سے 6730 صفحہ 1467 سے 1468۔

سورۃ 54 کہتی ہے:" پاس آئی قیامت اور شق سے ہو گیا چاند"۔ یوسف علی کی نظر ثانی تصنیف ۔

غور کیجیے کہ شق کا مطلب ہے دو حصوں میں ٹوٹنا، اور یہاں فعل ماضی کا استعمال ہوا ہے۔ ہمارے پاس بشمول مصر کے قریب، شام ، یا ایران کے لوگوں کے سوا جنہوں نے چاند کو دو حصوں میں ٹوٹتے دیکھا اور لوگوں کی بابت کوئی دستاویزات نہیں ہے ، قرآن اور حدیث یہ بیان نہیں کرتے کہ یہ کیسے پھر واپس جڑ گیا۔

یوسف علی حاشیہ 5128 میں یوں کہتا ہے،مترادف میں تین وضاحتیں دی گئی ہیں، اور شاید یہاں تینوں کا اطلاق ہوتا ہے:

1: کہ ایک دفعہ چاند کے دو ٹکڑے ہونا مکہ کی وادی میں ہوا جہاں پر نبی اور اس کے ساتھی اور چند غیر ایماندار تھے۔

2: ہوتی فعل ماضی مستقبل کو ظاہر کرتا ہے ، چاند کا ٹکڑوں میں ہونا آنے والی قیامت کا نشان ہے۔

3: یہ چھوٹا جملہ استعارہ ہے، اس کا مطلب ہے  کہ مادہ چاند کی طرح صاف بن گیا۔ پہلے پر ہم عصری لوگوں نے بشمول ایمانداروں کے ساتھ غور کیا جو کہ دوسری آیت سے واضح ہو جاتا ہے۔ دوسرا نئی تخلیق کے نظام شمسی میں ٹوٹ پھوٹ کا ایک حادثہ ہے۔ 9/8 ۔lxxv۔CF

قرآن میں متضاد مثالیں؟

پچھلی آیات کو رد کرتے ہوئے، آئیے ان آیات پر بات چیت کرتے ہیں  جن پر مسلمان اعتقاد رکھتے ہیں کہ یہ جدید علم ہیت کے نظریات کے حامی ہیں۔ ان کے ساتھ انصاف برتتے ہوئے،یہاں ان آیات کو وہ جوابات کے ساتھ اٹھاتے ہیں، سورۃ 7:53 آیت"۔۔۔۔۔۔ وہ رات دن کو ایک دوسرے سے ڈھانکتا ہے کہ جلد اس کے پیچھے لگا آتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

جواب، دن اور رات ایک دوسرے کی پیروی کرتے ہیں یہ سچ ہے، لیکن سائنس اور علم ہیت کی بابت کچھ نہیں بتاتے جن کو قدیم لوگ بھی نہیں جانتے تھے۔

سورۃ 13 کی 1 آیت اور سورۃ 31 کی 10 آیتے دونوں یوں کہتی ہیں۔ " اللہ ہے جس نے آسمانوں کو بلند کیا بے ستونوں کے کہ تم دیکھو"۔

جواب، قدیم لوگ بھیہ یقین نہیں رکھتے تھے کہ آسمانوں کے نچیے ستون ہیں،اللہ محض یوں کہتا ہے کہ کوئی بھی ظاہراً ستون نہیں ہے جس کو دیکھا جا سکے۔

سورۃ 13کی 2 آیت کا ب جز "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سورج چاند کو مسخر کیا! ہر ایک، ایک ٹھہرائے ہوئے وعدے کے مطابق چلتا (اپنے راستہ میں) ہے۔

جواب۔ قدیم لوگ بھی اس بات کے قائل تھے کہ سورج اور چاند میں باقاعدگی پائی جاتی ہے۔

سورۃ21 کی 29 آیت میں " کیا کافروں نے یہ خیال نہ کیا تھا کہ آسمان اور زمین بند تھے( تخلیق کی ایک اکائی کی حثیت میں) تو ہم نے (اللہ) انہیں کھولا؟" مسلمان یوں اس کو دیکھتے ہیں کہ قرآن بہت بڑے دھماکے کے نظریہ کی پیشن گوئی کر رہا ہے۔

جواب: قدیم مصری ہندو آرائین اور دوسرے لوگ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ آسمان اور زمین الگ ہونے سے پہلے اکٹھے تھے۔ محض یہ کہنا کہ آسمان اور زمین اکٹھے تھے (حصوں میں ہونے کو موثر طور پر ظاہر کرتا ہے)  ان قدیم اساطیرت کے زیادہ نزدیک ہے بہ نسبت بڑے دھماکہ کے نظریے کے۔

سورۃ21 کی 32 آیت: ہر ایک ( آسمانی اجسام) ایک گھیرے میں پیر رہا ہے۔ یوسف علی کا حاشیہ 2695 یہاں یوں رہنمائی کرتا ہے۔ یہ کہتا ہے۔ " میں بیان کر چکا ہوں، زیادہ تراجم سے ہٹ کر، کہ پیر رہا کا استعارہ اصل الفاظ کا موثر طور پر اشارہ کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"  ملک کا ترجمہ کہتا ہے،" ہر ایک (فلکیاتی اجسام) اپنے اپنے مدار میں تیزی سے گھومتے ہیں۔"

جواب: عربی لفظ "پیرنا" بالکل ویسے ہی سمجھا گیا تھا جیسے یوسف علی نے اس کا درست ترجمہ کیا تھا، جیسا کہ الطبری والیم 1 صفحہ 235؛ الطبری والیم 1 صفحہ 236 میں دکھایا جاتا ہے۔ آیات صرف سورج اور چاند کی بات کرتی ہیں دوسرے فلکیاتی اجسام کی بابت نہیں، پس بالکل بھی درست نہیں کہ (فلکیاتی ) اجسام کو قوسین مین ترجمہ کر کے لکھا جائے۔ قرآن آسمان پر سورج ، چاند اور معکوس ستاروں (سیاروں) کے اپنے مداروں میں گھومنے کے علاوہ اور کسی چیز کو بیان نہیں کرتا ہے۔

سورۃ 21 کی 03 آیت۔" جس دن ہم آسمان اور زمین کو لپیٹیں گے جسیے نامہ اعمال کو لپیٹتا ہے "۔

جواب: میرے لئے یہ واضح نہیں ہے کہ کیسے جدید علم ہیت کی پیشین گوئی کرتی ہے، لیکن محمد کی پہلی بیوی اس کو اناجیل سنانے کے لیے ایک مسیحی کے پاس لے گئی، اور بائبل مکاشفہ 6 باب کی 14 آیت اور پرانے عہد نامے میں یسعیاہ 34 باب کی 4 آیت میں ۔تاہم، مسیحی عام طور پر جدید علم ہیت کو مکاشفہ 6 باب کی 14 آیت کے لائق ٹھہرانے کی کوشش نہیں کرتے۔

سورۃ 22 کی 64 آیت "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ روکے ہوئے ہے آسمان کو کہ زمین پر نہ گر پڑے مگر اس کے حکم سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" یوسف علی کا حاشیہ 2847 کہتا ہے کہ لفظ اَسّمَاَء کا مطلب ہو سکتا ہے (1) اونچائی (2)  جڑ ، چھت، (3)  آسمان ، آسمان کی چھتری۔ (4 ) بادل یا بارش۔ وہ کہتا ہے اس نے آخری مطلب کو یہاں سمجھا ہے، اگرچہ زیادہ با اختیار جماعت اس کو "آسمان"  کے معنوں میں لیتی ہے۔

جواب: جیسے کہ با اختیار لوگوں کی جماعت اس کو اس کو آسمان کے معنوں میں لیگی جو کہ زمین کے زپٹے ہونے کے نظریہ سے بہت زیادہ متوازی ہے۔ تو بھی ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ آیت واضح طور پر ثا بت کرتی ہے کہ قرآں کا زمین کا چپٹا ہونے کا نظریہ درست ہے، عربی زبان کے غیر واضح ہونے کے سبب سے ، اس آیت کو یقنی طور پر قرآن میں جدید سائنسی نظریہ کو ثابت  کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے۔

سورۃ 25 کی 60 اور 62 آیت: "بڑی برکت والا ہے وہ جس نے آسمان میں برج بنائے اور ان میں چراغ رکھا اور چمکتا چاند اور وہی ہے جس نے رات اور دن کی بدلی رکھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

جواب: سورج کو چاند کہنا یہ ثٓبت نہیں کرتا کہ قرآن نے جدید سائنسی نظریات رکھے تھے۔ دن اور رات ایک دوسرے کی پیروی کرتے ہیں یہ سچ ہے، لیکن یہ کچھ ایسا ہے جس کو قدیم لوگ بھی جانتے تھے۔

سورۃ27 کی 87 آیت "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو دیکھے گا پہاڑوں کو خیال کرے گا کہ وہ جمے ہوئے ہیں اور وہ چلتے ہوں گے بادل کی چال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" ( مالک)  ایک مسلمان حمایتی بظاہر ایمان رکھتا ہے کہ یہ خفیہ طریقے سے زمین کے گھومنے کی بات کرتی ہے ۔

جواب: یہ آیت آخری نرسنگے کا بیان کرنے سے پہلے ہے، پس اقتباس آخری وقتوں کا ہے نہ کہ آج کی بابت۔

سورۃ 31 اس کی 28 آیت، اور سورۃ35 اس کی 22 آیت، سورۃ 36 اس کی 36 آیت اور سورۃ 39 اس کی 4 آیت تمام کہتی ہیں کہ اللہ دن کو رات میں تبدیل کرتا ہے یہ بھی بیان کرتی ہے کہ سورج اور چاند اپنے اپنے مقرر گھیرے میں بھاگتے ہیں۔ سورۃ 55 کی 4 آیت بھی کہتی ہے کہ سورج اورچاند اپنے اپنے مقرر گھیرے میں بھاگتے ہیں۔

جواب: کوئی بھی ایسی رائے نہیں دی جاتی کہ آسمان میں سورج اور چاند کا راستہ نہیں ہے۔یہ باتیں قدیم لوگ بھی جانتے  اورمانتے تھے۔ سچ کہتے ہوئے کہ کافر بھی پہلے سے ایمان رکھتے تھے اور بے شک وہ کتاب کو غلط ثٓبت نہیں کرتے۔ تاہم، علم کو دوبارہ بیان کرنا کسی بھی طرح سے قرآن کی پیشن گوئی کئے گئے جدید سائنسی علم کو ثابت نہیں کر پاتا۔

سورۃ 51 کی 46 اور 47 آیت "اور آسمان کو ہم نے ہاتھوں سے بنایا اور بے شک ہم وسعت دینے والے ہیں اور زمین کو ہم نے فرش( وسعت دی ) کیا۔ تو ہم کیا ہی اچھے بچھانے والے! (یوسف علی ) دوسرے مترجمین اس کو "بچھونے کی طرح" کہتے ہیں۔

جواب: زمین کو پھیلانا، جس کو کچھ زمین کے چپٹے ہونے کی تعلیم کے طور پر دیکھتے ہیں، بالکل بھی یہ ثابت نہیں کرتی کہ قرآن نے جدید سائنسی نظریات کی تعلیم دی تھی۔ ایک غیر مسلم ہوتے ہوئے، میں خوش دلی سے تسلیم کرونگا کہ یہ زمین کے چپٹے ہونے کی جھوٹی تعیلم نہیں ہو سکتی،بلکہ ایک شاعرانہ انداز ہو سکتا ہے ۔مسلمان اس آیت کو کائنات میں ایک بڑھے دھماکے کی قرآنی آیت کے لیے استعمال کر چکے ہیں حقیقت یہ ہے کہ خدا کا آسمان کو وسعت دینا ہرگز بڑھے دھماکے کے نظریہ کا مطلب نہیں دیتا، اور خدا نے یسعیاہ 42 باب کی 5 آیت میں بائبل میں یہ کہا ہے کہ اس نے آسمانوں کو پھیلایا ہے۔ تاہم، مسیحی اس مبہم حوالے کو بڑھے دھماکے کے پیشین گوئی نظریہ کو ثابت کرنے کے لئے استعمال کرنے کی کوشش نہیں کرتے ہی۔

سورۃ 55 کی 32 آیت زمین کے کناروں کو بیان کرتی ہے کہ انسان و جن (جنات) اختیار کے بغیر ان کو پار نہیں کر سکتے۔

جواب: آیت، زمین کے کنارے جدید علم جغرافیہ کی تعلیم نہیں دیتی ہے، اگرچہ یہ تھوڑی بہت سمندر کے ان بڑے جہازوں یا دوسرے مال بردار جو لوگوں کو زمین کے دوسرے حصوں تک سفر طے کرواتے ہیں۔ جیسی معلوم ہوتی ہے۔ بالکل ایسے ہی آسمان کے کنارے زیادہ کوئی مطلب نہیں دیتے سوائے محمد اور یہودی روایت سات آسمانوں کی بات کرتے تھے۔

سورۃ71 کی 14 اور15 آیت "کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے سات آسمان بنائے ایک پر ایک اور ان میں چاند کو روشن کیا اور سورج کو(چمکتا ہوا) چراغ؟ " کچھ مسلمانوں کی طرف سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ زمین کے کرہ فضائی کی سات پرتیں ( کرہ ہوائی، کرہ اؤل، وغیرہ) سات آسمان ہیں۔

جواب: علاہ ازیں کہ سات آسمان یہودی روایت کے مطابق یکسان ہیں، چاند کو روشن اور سورج کو چراغ کہنا جدید سائنسی نظریات کو ظٓاہر نہیں کرتا، اگر اس کو شاعرانہ زبان کے طور پر سمجھا جائے تو یہ جھوٹ نہیں ہے۔ پس، اگر سات آسمان زمین کے کرہ فضائی کی سات پرتیں ہیں، تو پھر سورج، چاند اور ستاروں کو آسمان پر کہنا غلط ہو گا۔

ایک توجہ طلب بات، اگرچہ بائبل کبھی بھی سات آسمانوں کو بیان نہیں کرتی، مگر مختلف غیر مستند روایات سات آسمانوں کا ذکر کرتی ہیں۔

20 باب کی 1 آیت  صفحہ نمبر 134 اور 135؛ ,Enoch

باب کی 8آیت،9باب کی1آیت،10باب کی17آیت؛7Martyrdom and Ascension of Isaiah

 3 باب کی 3آیت صفحہ نمبر3۔ The testament of the twelve partiarchs

 11باب کی 1 آیت صفحہ 675 پانچ آسمانوں کا بیان کرتی ہے، گویا کہ یہ یوں نہیںBaruch 14

کہتی ہے کہ وہاں صرف یہی ہیں۔ پس تو بھی اگر یہ سائنسی معجزہ ہے کہ محمد نے بیان کیا ہے کہ سات آسمان زمین کے کرہ فضائی کی پرتوں کا مطلب دیتے ہیں،تو پھر یہ اس سے بھی ایک بڑا معجزہ ہو گا کہ ان ابتدائی کاموں نے بھی سات آسمانوں کو بیان کیا تھا۔

سورۃ86 کے شروع سے 3آیت آسمان کی قسم اور رات کو آنے والے کی اور کچھ تم نے جانا وہ رات کو آنے والا کیا ہے خوب چمکتا تارا ( بالکل ایسے اللہ کہکشاں کے ہر ایک ستارے کا خیال رکھ رہا ہے) کوئی جان نہیں جس پر نگہبان نہ ہو " (مالک) کچھ مسلمان دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ تعلیم دیتی ہے کہ سورج ایک ستارہ ہے۔

جواب: دو باتوں پر غور کیجیے

1) سورج کا یہاں پر ذکر نہیں ملتا ہے

2) جو کچھ قوسین میں ہے وہ انگریزی ترجمہ میں کیا گیا تھا؛ یہ اصل عربی زبان میں نہیں ہے!

یوسف علی (نظر ثانی تصنیف) یہاں پر نہایت ہی درست ترجمہ کرتا ہے "آسمان" 6067 کی قسم اوررات کو آنے والے 6068 کی (جو کچھ اس میں ہے) اور کچھ تم نے جانا کہ وہ رات کو آنے والا کیا ہے؟ (یہ ہے) خوب چمکتا تارا؛ کوئی جان نہیں جس پر نگہبان نہ ہو6069 ۔ یوسف علی کا حاشیہ606 کہتا ہے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ لوگ اس خوب چمکتے ہوئے تارے کو صجح کا ستارا سمجھتے ہیں، کچھ اس کو سیارہ زحل سمجھتے ہیں، کچھ اس کو سبرس سمجھتے ہیں یا جھمکڑا [بنات النعش] یا ٹوٹتے ہوئے ستارے سمجھتے ہیں۔ میرے خیال میں اس کو مشترکہ یا معین صورت میں "ستارا" کہنا بہتر ہے۔  کیونکہ سال کی ہر ایک رات میں ستارے چمکتے ہیں، اور ان کی خوب چمک اندھیری راتوں میں بہت زیادہ قابل توجہ ہوتی ہے۔

کچھ تفسیریں واقعی اس دنیا سے باہر کی ہیں! یہاں پر کچھ اور مسلمانوں کے نظریات کو قلمبند کیا گیا ہے۔

 اس سائیٹ میں اور بھی اچھی http://debate.org.uk/topics/history.interprt.htm.

معلومات ہیں۔

مثٓل کے طور پر محمد منفی البانہ جس نے ہوائی جہازوں کے خفیہ اشارے ڈھونڈے( سورۃ17) مصنوعی سیارے(سورۃ41 کی52 آیت) سیاراتی سفر(سورۃ55 کی 32 آیت) اور ہائیڈروجن بم( سورۃ 74 کی 32 سے 37 آیت) (جنسن 48:1980)

اس طرح، یہ حیران کن بات نہ تھی کہ کب محمد کمال دعو جیسے آدمیوں نے یہ لکھا کہ قرآن کے سائنسی مندرجات کا معجزہ اپنی بے مثل طاقت لسانی سے بڑا معجزہ ہے۔ اس نے محمد کو اور اب سے آگے قرآن کے تمام بیانات کی درستگی کو دیانت دی۔

آج سائنسی توضیح کے لیے سب سے مشہور شضص فرانس کا ڈاکٹر

  ہے اس نے اپنی کتاب بائبل، قرآن اور سائنسمیں وہ بائبل کی غیر فطری Maurice Bucaille

سائنس کو عیاں کرنے کا طالب ہے اور ٹھیک اسی وقت میں وہ وہی پیمانہ استعمال کرتے ہوئے قرآن کے رتبے کو بلند کرتا ہے۔

لیکن کچھ مسلمان اس کو زیادہ تر زمینی ہی تصور کرتے ہیں لازم تھا کہ ذکر کیا جاتا کہ بہت سارے مسلمان ماضی کی تشریحات کو نہیں اپناتے۔ کچھ کے خیال میں یہ آیات محض آسمان میں موجود مشاہداتی چیزوں پر تصبرہ کر رہی ہیں۔

محمد نے کہا : میرے بارے میں جو کچھ تمہیں معلوم ہے اس سے بڑھ کر کچھ اور بیان کرنے سے بچو۔

جو کوئی جان بوجھ کر میرے خلاف جھوٹ بولتا ہے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم کی آگ میں بناتا ہے۔ اور جو کوئی قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کرتا ہے اس کا ٹھکانا جہنم کی آگ ہے۔ ترمذیEE تفسیر 1،( 2951) (مشترکہ)

نہیں،  ہم جھوٹ کے خلاف سچائی کو زورسے دیتے ہیں، اور اس کی عقل پر ضرب لگاتی ہے، اور دیکھو، جھوٹ ضرور تباہ ہوتا ہے! آہ! تم پر افسوس جب تم ( ہماری نسبت) (جھوٹی) باتیں بیان کرتے ہو۔ سورۃ21 کی 19 آیت۔

اگر کوئی جان بوجھ کر محمد کے خلاف جھوٹ گھڑتا ہے، تو اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔ ابو داود والیم3 باب 1372 کتاب19 عدد 3643 صفحہ 1036۔ بخاری میں بھی والیم 2 کتاب 23 باب 33 عدد 378  صفحہ نمبر 212 اور 213۔

"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جو کوئی جان بوجھ کر میرے خلاف (محمد کے) جھوٹ بولتا ہے،تو یقیناً وہ اپنا مقام (جہنم) آگ میں پائے گا۔" بخاری والیم8 کتاب 73 باب 109 عدد 217 صفحہ نمبر 139 اور 140۔

جھوٹا گواہ برابر ہے اس شخص کے جو اللہ کا شریک بناتا ہے ابن ماجہ والیم 3کتاب 13 عدد 2372 صفحہ نمبر 414۔

 

 

مسلم نظریات اور جوابات

1۔ قرآن جدید سائنس کی پیشنگوئی کرتا ہے : سورج اور چاند مدار میں ہیں اور اپنے اپنے دائرہ میں گھومتے ہیں (سورۃ 21 اسکی 32 آیت اور سورۃ 36 کی 26 سے 39 آیت) حتی کہ قرآن بڑے دھماکے کے نظریہ کی تعلیم بھی دیتا ہے ( سورۃ 21 کی 29 آیت) سورۃ 51 کی 46 اور 47 آیت) عربی لفظ فلک کا مطلب" مدار" ہے علم ہیت کے ماہر ہمیں بتاتے ہیں کہ ہر 250 ملین سالوں میں کہکشاں کے درمیان مدار میں سورج چکر لگاتا ہے۔ عربی لفظ یَسُبَحُوُنَ کا مطلب اپنے دائرہ میں تیرنا ہے۔

1جواب: حقیقت میں یہ دو وجوہات کے لیے خواہشات پر مبنی سوچ ہے۔

1) الفاظ غیر واضح ہیں: فلک عربی لفظ سے مراد راستہ، بڑھوتری اور مدار، اور یسبحون کا مطلب ہو سکتا ہے تیزی سے چلنا اگرچہ اس کا نہایت براہ راست مطلب تیرنا ہے۔

2)محمد نے ہمیں واضح طور پر بتایا ہے کہ اس کا کیا مطلب ہے ،اور اس سے مراد سورج اور چاند کا زمین کے گرد سفر کرنا ہے، رتھ پر سوار ہو کر زمین کے آسمان کا سفر کرنا۔

یہاں ایک بار پھر محمد نے جو کیا اس کے دو ذرائع ہیں۔

خدا نے آسمان سے دور (18 کلو میٹر) تین فسراک پر ایک سمندر پیدا کیا۔ جس میں لہریں تھیں، یہ خدا کے حکم سے فضا میں کھڑا رہتا ہے ۔ اس کا ایک بھی قطرہ کناروں سے باہر نہیں ٹپکتا۔ تمام سمندر بے حس ہیں، مگر یہ سمندر تیر کی تیزی کی طرح بہتا ہے، یہ ہوا میں ہموار طور پر چلنے کے لیے آزاد ہے، جیسے کہ ایک رسی مشرق سے مغرب کے درمیان علاقے میں پھیلائی گئی ہو۔ سورج، چاند اور معکوس ستارے ( 5 ستارے) اپنے اپنے گہرے اٹھتے ہوئے دائرے میں بھاگتے ہیں۔ یہ ( مطلب ہے) خدا کا کلام: ہر ایک اپنے دائرہ میں تیرتا ہے۔ "دائرہ" اس سمندر کے گہرے اٹھتے ہوئے دائرہ میں رتھ کا بہاؤ ہے۔ الطبری والیم 1 صفحہ نمبر 235۔

ابر دہر سے روایت ہے:  غروب آفتاب کے وقت نبی نے مجھ سے پوچھا، "کیا تمہیں معلوم ہے کہ ( شام ہونے کے بعد ) سورج کہاں جاتا ہے؟ میں نے جواب دیا، اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتا ہے۔ آپ نے کہا، یہ تخت کے نیچے اطاعت کے لئے (یعنی سفر کرتا) چلا جاتا ہے، اور دوبارہ اٹھنے کی اجازت لیتا ہے، اور اس کو اجازت دی جاتی ہے اور پھر(ایک وقت آئیگا جب) کہ یہ خود اطاعت کرنے لگا ہو گا مگر اس کی اظہار اطاعت قبول نہ ہو گی۔۔۔۔"۔ بخاری والیم4 کتاب54 باب4 عدد 441 صفحہ نمبر283۔ صحیح مسلم والیم 1 کتاب 1 باب 73 عدد 297 سے 300، صفحہ نمبر 95 سے 96، ابو دہر اور محمد کے درمیان بات چیت کی بہت ساری تفصیل موجود ہے۔

2۔ قرآن ذکر کرتا ہے کہ سورج کا مدار ہمارے نظام شمسی کے درمیان ہیں ہے۔

2جواب: سورج مہارے نظٓام شمسی میں الگ سے آزاد کوئی مدار نہیں رکھتا ہے۔ اگر قرآن جدید سانس کی تعلیم دینے کی کوشش کرتا ہے، تو اس کو کہنا چاہیے تھا کہ سورج، چاند ،زمیں اور معکوس ستارے ( سیارے) تمام نظام شمسی میں اکھٹے مدار میں رواں ہیں۔

ایک بار پھر ہم درست طور پر جانتے ہیں  کہ محمد کے کہنے کا کیا مطلب تھا، کیونکہ اس نے ہمیں بتایا تھا، جیسا کہ بخاری والیم بخاری والیم4 کتاب54 باب4 عدد 441 صفحہ نمبر283۔ اور الطبری والیم 1 صفحہ 235 بیان کرتا ہے۔

3: سورج کی آرامگاہ کا مطلب کہ وہ زمین کی دوسری جانب چمک کر رہا ہے۔

 ایک بار پھر ہمیں معلوم ہے کہ محمد کا کیا مطلب تھا، کیونکہ اس نے ہمیں بنایا تھا، ، جیسا کہ بخاری والیم بخاری والیم4 کتاب54 باب4 عدد 441 صفحہ نمبر283۔ اور الطبری والیم 1 صفحہ 235 بیان کرتا ہے۔

4:  سورج کی آرامگاہ کا مطلب ہے کہ سورج کی حتمی تباہی۔

4 جواب: کوئی بھی روایتی آدمی اس کو کسی بھی زبان میں پڑھ کر یہ سوچے گا کہ یہ وقت کے دائرہ کار کا حوالہ ہے نہ کہ حتمی تباہی کا۔

5۔ ظاہراً زبان: سورج، چاند اور سیارے آسمان پر اپنا راستہ بناتے ہیں۔ یہ آیات نہ تو جدید سائنس کی حامی ہیں اور نہ ہی اس کے خلاف ہیں، لیکن شاعرانہ انداز محض یوں کہتا ہے کہ فطرتی طور پر انسان نے جو کچھ مشاہدہ کیا اللہ اس کے پیچھے تھا۔

5 جواب: یہ نہایت قابل فہم ہو گا، سوائے جو کچھ محمد نے بخاری اور الطبری کے مطابق کیا تھا۔ اگر بخاری اور الطبری اس کی بابت غلط تھے تو پھر کونسا پیمانہ ان کے لیے ہے کہ جو کچھ انہوں نے کہا وہ درست تھا۔

نتیجہ

کچھ ( نہ کہ سب) مسلمان قرآن کو سائنسی طور پر درست ثابت کرنے کے لیے ان آیات کا استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں، قرآن کو سائنسی طور پر درست ثابت کرنے  کا یہ دعویٰ،  عقلی طور پر ایک مخلصٓنہ کوشش نہیں ہے ۔ حقیقت میں، کچھ آیات جن کو ہم جانتے ہیں جدید سائنس سے متصٓدم ہیں، جب تک کہ آپ ان کو ظاہراً زبان اور شاعرانی انداز میںسمجھ نہیں لیتے ۔ تاہم، بخاری اور الطبری دکھاتے ہیں کہ ان آیات کو بالکل اصل سمجھا گیا تھا۔ سورج اور چاند زمیں کے اوپر آسمان میں تیرتے ہیں۔

 تاہم، دنیا میں سب سے زیادہ اہم بات یہ نہیں ہے جو آپ جانتے ہیں، بلکہ جو آپ کو جانتا ہے۔ یہ انسانوں کے وہ نظریات نہیں جن پر آپ ایمان رکھتے ہیں، لیکن خواہ آپ سچے خدا نے جو ظاہر کر دیا ہے اس کی پیروی کرتے ہیں۔ جو کوئی بھی انیسویں صدی میں علم ہیت کے بارے میں نقطہ پیش کیا گیا ہے اس میں خامی موجود ہے کس کو کہنا پڑتا ہے کہ مستقبل میں لوگ ہمارے سائنسی نظریاتکی بابت وہی کچھ نہیں کہینگے؟ واحد راستی جس سے ہم جان سکتے ہیں کہ سچ وہی ہے جو کچھ خدا ہم پر ظاہر کر چکا ہے۔ ہم بھروسہ رکھتے ہیں کہ جو ہمیں جاننے کی ضرورت ہے خدا اس کو ظاہر کر اگ ، اور وہ اپنے مکاشفہ کے مطلب کو محفوظ کرے گا۔

کتابیات: قرآن کے ترجم

1. Arberry, Arthur J. The Koran Interpreted. Macmillian Publishing Co., Inc.1955.

 

2. Dawood, N.J. The Koran. Penguin Books. 1956-1999.

 

3. Malik, Farooq-i-Azam. English Translation of the meaning of AL-QUR’AN: The Guidance for Mankind. The Institute of Islamic Knowledge.1997

 

4. Pickthall, Mohammed Marmaduke. The Meaning of thw Glorious Koran. Dar al-Islamiyya (Kuwait) (no date given)

5. Rodwell, J.M. The Koran. First Edition. Ivy Books, Published by Ballantine Books. 1993

 

6.Shakir, M.H. The Qur’an. Tahrike Tarsile Qur’an, Inc. 12th U.S. Edition 2001.

 

 7. sher Ali, Maulawi. The Holy Qur’an. Ialam International Publications Limited (Ahmadiyya) 1997

 

8. Yusuf’Ali, Abdullah. The Holy Qur-an: English translation of the meaning and Commentary. Revised & Edited by The Presidency of Islamic Researches, IFTA. King Fahd Holy Qur-an Printing Complex. (Al Madina Saudi Arabia) 1410 A.H.

 

 دوسرے حوالہ جات

 

Campbell, Dr. William. The Qur’an and the Bible in the light of History and Science (2nd edition). Arab World Ministries 2002.

 

The Translation of the Meanings of Sahih Al-Bukhari Arabic-English

Vol.1by Dr. Muhammad Muhsin Khan. Islamic University, Al-Medina Al-Munawwara AL MAKTABAT AL SALAFIAT AL MADINATO AL MONAWART

No date, No copyright.

 

The History of al-Tabari: An Annotated Translation. Ehsan Yar-Shater, General Editor. State University of New York Press 1989-.

 

http://debate.org.uk/topics/history/interprt.htm

 

تعلیقہ۔ سورۃ36: 38-40 کے ترجمے

"اور سورج چلتا ہے اپنے ایک ٹھہراو کے لیے یہ حکم ہے زبردست علم والے کا۔ (38) اور چاند کے لیے (بارے میں) ہم نے منزلیں مقرر کیں یہاں تک کہ پھر ہو گیا جیسے سورج کی پرانی ڈال (ٹہنی) (40) سورج کو نہیں پہنچتا کہ چاند کو پکڑ لے اور نہ رات پر سبقت لے جائے۔ اور ہرایک (بالکل) گھیرے میں (اپنے ہی ) پیر رہا ہے" ایم ایچ شاکر کا ترجمہ۔

 کے ترجمے میں آیت ایک نمبر پیچھے ہے۔Pickthall

"(37) "اور سورج چلتا ہے اپنے ایک ٹھہراو کے لیے یہ حکم ہے زبردست علم والے کا۔ (38) اور چاند کے لیے (بارے میں) ہم نے منزلیں مقرر کیں یہاں تک کہ پھر ہو گیا جیسے سورج کی پرانی ڈال (ٹہنی) (39) سورج کو نہیں پہنچتا کہ چاند کو پکڑ لے اور نہ رات پر سبقت لے جائے۔ اور ہرایک (بالکل) گھیرے میں (اپنے ہی ) پیر رہا ہے (ایم ایم  کا ترجمہ) Pickthall

(38) اور ان کے لیے ایک نشانی رات ہے ہم اس پر سے دن کھنچ لیتے ہیں جبھی وہ اندھیروں میں ہیں؛ 39 اور سورج چلتا ہےاپنے ایک نافذ راستہ کے لیے یہ حکم ہے زبردست علم والے کا (مولوی شیر علی کا ترجمہ) (احمدیہ) (36: 40-37)

"اور ان کے لیے ایک نشانی رات ہے ہم اس پر سے دن کھنچ لیتے ہیں جبھی وہ اندھیروں میں ہیں؛ 37 اور سورج چلتا ہےاپنے ایک ٹھہراو کے لیے یہ حکم ہے زبردست علم والے کا۔38 اور چاند کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کیں( ایک سرے سے دوسرے سے تک) یہاں تک کہ پھر ہو گیا جیسے کھجور کی (سوکھی ہوئی) پرانی ڈالی۔39 سورج کو نہیں پہنچتا کہ چاند کو پکڑ لے اور نہ رات پر سبقت لے جائے۔ اور ہرایک (بالکل) گھیرے میں (اپنے ہی ) پیر رہا ہے" محمد فاروق اعظم مالک کا ترجمہ۔

(37) اور ان کے لیے ایک نشانی رات ہے ہم اس پر سے دن کھنچ لیتے ہیں جبھی وہ اندھیروں میں ہیں؛ 38 اور سورج چلتا ہےاپنے ایک ٹھہراو کے لیے یہ حکم ہے زبردست علم والے کا۔39 اور چاند کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کیں( ایک سرے سے دوسرے سے تک) یہاں تک کہ پھر ہو گیا جیسے کھجور کی (سوکھی ہوئی) پرانی ڈالی۔40 سورج کو نہیں پہنچتا کہ چاند کو پکڑ لے اور نہ رات پر سبقت لے جائے۔ اور ہرایک (بالکل) گھیرے میں (اپنے ہی ) پیر رہا ہے۔( قانون کے مطابق)  (یوسف علی کا ترجمہ القرآن (صفحہ نمبر 1326-1327) اسلامک ریسرچ کی صورت میں کی گئی نظر ثانی اور درست ترجمہ کیا گیا مواد۔

IFTA. King Fahd Holy Quran Printing Complex

(37) اور ان کے لیے ایک نشانی رات ہے ہم اس پر سے دن کھنچ لیتے ہیں جبھی وہ اندھیروں میں ہیں؛ 38 اور سورج چلتا ہےاپنے ایک ٹھہراو کے لیے یہ حکم ہے زبردست علم والے کا۔39 اور چاند کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کیں( ایک سرے سے دوسرے سے تک) یہاں تک کہ پھر ہو گیا جیسے کھجور کی (سوکھی ہوئی) پرانی ڈالی۔40 سورج کو نہیں پہنچتا کہ چاند کو پکڑ لے اور نہ رات پر سبقت لے جائے۔ اور ہرایک (بالکل) گھیرے میں (اپنے ہی ) پیر رہا ہے۔( قانون کے مطابق)

حاشیہ 17 کہتا ہے "دائرہ، راستہ"

عبداللہ یوسف علی ناشر ملت بک سنٹر۔

یہ یوسف علی کے پہلے ( نظر ثانی) بیان سے مختلف ہے جس میں اس کے لیے "ایک ٹھہراو کے لیے" نسبتاً اس کے لیے آرام دہ جگہ۔ اور "منزلیں" نسبتاً محل سرائے۔

اور ان کے لیے ایک نشانی رات ہے ہم اس پر سے دن کھنچ لیتے ہیں جبھی وہ اندھیروں میں ہیں۔ اور سورج چلتا ہےاپنے ایک ٹھہراو کے لیے یہ حکم ہے زبردست علم والے کا۔ اور چاند کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کیں( ایک سرے سے دوسرے سے تک) یہاں تک کہ پھر ہو گیا جیسے کھجور کی (سوکھی ہوئی) پرانی ڈالی۔ سورج کو نہیں پہنچتا کہ چاند کو پکڑ لے اور نہ رات پر سبقت لے جائے۔ اور ہرایک آسمان میںتیر رہا ہے۔

 کا ترجمہ۔A.J.Arberry

اور ان کے لیے ایک نشانی رات ہے ہم اس پر سے دن کھنچ لیتے ہیں جبھی وہ اندھیروں میں ہیں۔اور سورج چلتا ہےاپنے ایک ٹھہراو کے لیے یہ حکم ہے زبردست علم والے کا۔ اور چاند کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کیں( ایک سرے سے دوسرے سے تک) یہاں تک کہ پھر ہو گیا جیسے کھجور کی (سوکھی ہوئی) پرانی ڈالی۔ سورج کو نہیں پہنچتا کہ چاند کو پکڑ لے اور نہ رات پر سبقت لے جائے۔ اور ہرایک  اپنے دائرہ میں سفر کر رہا ہے۔

 کا ترجمہ۔J.M.Rodwell

آدمیوں کے لیے ایک نشانی رات ہے ہم اس پر سے دن کو اٹھا  لیتے ہیں جبھی وہ اندھیروں میں ہیں۔ اور سورج تیزی سے اپنی آرام گاہ کے لیے اپنے راستہ پر چلتا ہے اور یہ حکم ہے زبردست علم والے کا۔ اور چاند کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کیںیہاں تک کہ پھر ہو گیا جیسے کھجور کی (سوکھی ہوئی) پرانی ڈالی۔ سورج کو نہیں پہنچتا کہ چاند کو پکڑ لے اور نہ رات پر سبقت لے جائے۔ اور ہرایک اپنے ہی گھیرے میں تیرتا ہے۔

 کا ترجمہ القرن۔N.J.Dawood

http://www.submission.org/efarsi/arabic/sura36.html.

کہتی ہے سورج ایک مقرر مقام پر غروب ہوتا ہے با مطابق قادر مطلق کے جو بڑا علم والا ہے۔