محمد کا بیان کردہ  رات کا سفر،سورۃ ۱۷ میں

"پاک ذات ہے جو لے گیا اپنے بندے کو روت ہی راتادب والی مسجد سے پرلی مسجد تک جس میں ہم نے خوبیان رکھی ہیں دکھا دیں اسِکو  کُچھ اپنی قدرت کے نمونے ہی ہی ہے سُنتا دیکھتا(تمام چیزیں)"۔

پس سورۃ ۱۷ کُھلتی  ہے۔ جو رات کا سفر کہلائی،جسے عبداللہ یوسف علی نے ترجمہ کیا۔بُہت سے مسلمان اس واقعے سے واقف ہیں،جو معراج کہلاتا ہے،جس کے مختلف رجات ہیں،حتیٰ کے مسلمان سورۃ۱۷: ۱ کو ،قرآن کی معجزانہ سچائی کو بطور ثبوت رکھتے ہیں،ہو سکتا ہے کہ وہ غور نہیں کرتے  ہوں گے کہ وہ مشکلات اور اضتلافات جو رُٹھتی ہیں، قرآن کی سچائی کیلیے ثبوت نہ ہو۔

سمجھنے کیلیے یہ اہم ہے کہ آپکا مذہب کیا سکھاتا ہےآیا کہ مسیح ،یہودی یا مسلمان ہو۔ہم تمام کو اپنے مذہب کا دفاع کرنے کیلیے خوش ہونا چاہیے۔جیسا  آپ سوچتے  ہیں۔کہ رات کے سفر کی پڑتال کرنا تمہیں ضرور ہے متعلقہ حقائق  کا اور فیصلہ  کرنا کہ جو ایمان رکھتے ہیں ہو حقیقتاً گیا واقع ہوا ہے۔

اگر محمد نے مافوں الفظرت طور پر ،اپنے وقت میں یروشلم میں کسی مسجد کی زیارت  کی تھی ، کیا وہاں واقعی  یروشلم  میں  ہیکل کے  پہاڑ پر کوئی مسلمان  مسجد تھی  جبکہ محمد ابھی تک زندہ تھا؟کیا وہاں ہیکل کے پہاڑ پر  کوئی مسیحی گِرجا یا یہودی عبادت خانہ تھا؟ یا جب کہ یروشلم فارسی قبضہ میں تھا،کیا ہیکل کے پہاڑ کا علاقہ کوڑاکرکٹ پھینکنے کیلیے استعمال ہوتا تھا، جیسے انسائیکلو پیڈیا برٹنیکا اور مسلمان  تاریخ دان ابطری کہتے ہیں؟

مسلمان دعویٰ کرتے ہیں کہ یروشلم دور دراز کا شہر تھا

کُچھ غیر مومولی مسلمان تشریجات پر نظر   کرنے سے پہلے، ہم مختصر طور پر ایک معیاری مسلمان تشریح پر غور کرتے ہیں ۔عبداللہ یوسف علی سورۃ ۱۷  کے اپنے متعارف میں بیان کرتا ہے:"یہ[سورۃ ۱۷] نبی پاک محمدؐ کے رات کے سفر کو کھولتی ہے:وہ مقدس مسجد[ مکہ کی]سے دوردروز مسجد [یروشلم] کی طرف ایک رات میں لے جایا گیااور اللہ کی نشانیوں  میں سے ظاہر کی گئیں۔معسروں کی اکثریت اس رات کے سفر  کو حقیقتاً لیتے ہیں۔حدیث کا ادبی مواد اس سر کی تفصیل بیان کرتا ہےاور اسکا مطالعہ  اس کے معنی کو تسصیلی طور پر بیان کرنے میں مدد دیتا ہے۔نبی پاک پہلے یروشلم میں مکاشفات  کی پہلی نشست میں لے جایا گیا،اور پھر سات آسمانوں میں سے اآنچے تخت کی طف لے جایا گیا"۔

یوسف علی کا حاشیہ  ۲۱۶۸۔"دوردراز مسجد  کا اشارہ ضرور ماریاہ کے پہاڑ پر یروشلم میں سلیمان کی ہیکل کی طرف ہونا چاہیے ۔جس کہ قریب یا پاس  چٹان کا گُنبد کھڑا ہے اُسے حضرت عُمر کی مسجد بھی کہا جاتا ہے۔یہ اور وہ  مسجد جو دوردراز  کی مسجد مشہور ہے(مسجد الاقعیٰ) کو عامر ،عبدالمالک نے ۶۸ ھبح میں مکمل کیا۔۔۔اور ۷۰ م میں شہنتاہ طِطُس نے مکمل طور پر مسمار کردیا"۔

فاروق اعظم ملک کا سورۃ ۱۷: ۱ کا ترجمہ۔"اُسکو جلال جس نے اپنے بندہ  (محمد)کو  مسحدالحرام (مکہ میں) سے مسجد الاقعیٰ(یروشلم) تک لیا۔جس کے نزدیک ہم نے  برکت دی،اس طرح ہم اُسے اپنی نشانیوں میں سے دکھا سکتے ہیں۔ یقیناً وہ ایک ہے جو سُنے ہوالا اور دیکھنے والا ہے"۔

آؤ خلیفہ عمر سے سوال کریں

آؤ اسے ایک دفعہ قائ٘ کریں اور تمام  کیلیے یہ  پوچھتے ہوئے کہ عمرنے کیا کِیا۔عمر محمد کا صحاجی اور خلیفہ ابوبکر کے مرنے کے بعد تمام مسلمانوں کا رہنما،جاتا تھا کہ یروشلم کا سورۃ ۱۷ میں میں کیا مطلب ہے کیونکہ ۶۳۸ م میں عمر نے سورۃ ۱۷ کا شروع یروشلم داخل ہونے کے بعد پڑھی۔

مارپیٹ کیلیے نقطہ کے اظہار ندامت کیلیے،لیکن مسلمانوں کی اکثیت کا خیال یہ کہ محمد سورۃ ۱۷ میں یروشلم میں دوردراز مسجد میں گیا۔

مسجد کیلیے اظام اتعمل

 بنیادی نقطہ یہ کہ رات کا سفر ایک زمانے کے حساب لگانے میں غلطی کو ظاہر کرتا ہے۔یہ ایسے بیان کیا جاتا ہے:"کسی کی موجودگی کے طور پر نمائندگی یا کسی دوسرے میں کسی چیز کا واقعہ ہونا یہ سیبت تاریخ وار،مناسب یا تاریخ تربیت کے:۔ مثال کے طور پر،اگر تم، ۱۳ویں صدی کی لڑائی کے ایک حقیقی بیان و پڑ رہے ہیں۔اور کہانی کا حصہ جیٹ ہوائی جہازوں کو شامل کرلے،تو تم فوراً پہچان لو گے کہ کُچھ غلط ہےیسے ہی کسی زمانے میں حساب لگانے میں غلطی ،فوراً کسی کام میں شامل ہوجائیگی  جیسے کوئی فریبی کام۔

اسی خیال کو ذہن میں رکھتے ہوئےہم خاص طور پر رات کے سفر پر نظر ڈالیںمحمد نے ۶۱۷ اور ۶۲۴ کے درمیان  کسی وقت رات کا سفر کیا۔قرآن کے مطابق ،محمد نے اُس وقت دوردراز  مسجد(الاقعٰ) کی زیارت کی۔تاہم ، اُس وقت یروشلم میں کسی قسم کی مسجد کا وجود نہ تھا۔چٹان کا گُنبد ۷ویں صدی  کے آخر میں عبدالمالک نے تعمیر  کیا،عمر نے ۶۳۷ م میں اصلی الاقعٰ مسجد تعمیر کی،(اھرچہ عبدالمالک نے الاقعٰ  کو دوبارہ تعمیر کیا) پس نے کہاں زیارت کی؟آؤ اُسے مزید تفصیل میں پرکھیں۔

اُس نے بُلند کیا جس نے اپنے خادم[محمد] کو اُٹھایا رات کو مسجد الحرام (مکہ) سے مسجد الاقعیٰ تک[ یروشلم ؟]

پس یہ مسجد الاقعیٰ کہاں ہے؟ زیادہ متعلقہ سوال یہ ہے کہ ۶۲۴ کے سال میں مسجد الاقعیٰ کہاں تھی؟ یہ سوال ہے جس کا ایک مسلمان کو جواب دینا ہے۔کیا  یہ یروشلم ہوسکتا تھا؟ثبوت واضح طور پر اشارہ کرتا ہے کہ یہ نہیں ہوسکتا۔یہ ہے کیونکہ اُس وقت یروشلم میں کوئی مسجد نہ تھی۔ نہ ہی قرآن میں یروشلم نام آیا ہے،اور نہ ہی یروشلم  میں بعد میں تعمیر شُدہ مساجد کے نام میں رات کا سفر ہے۔

رات  کے سفر میں یروشلم میں کوئی مسجد نہ تھی

۶۳۸ م کے موسم بہار میں ،خلیفہ عمر، سفرونیس کی درخوات پر یروشلم آی،بزرگانِ اسرائیل پر حکُمت کرنے  کیلیے۔خاص طور پر ، عمر آیا کیونکہ سفرونیس طویل محا صرے کے بعد یروشلم حوالے کرنے کیلیے تیارتھا۔تاہم، سفرونیس نے اپنے آپکو  خلیفہ کے حوالے نہ کیا۔یاد رکھیں،یہ واقعہ رات کے سفر کے کم از کم چودہ سال بعد رونما ہوا اور محمد کی وفات کے چھ سال بعد۔ یروشلم میں مسجد کی جگہ یہاں یہودیوں کی ہیکل کھٹری تھی۔اُس وقت یہ ایک مبلے کا ڈھیر تھا۔ عمر نے لوگوں کو بتایا کہ ملبہ صاف کرنے میں  اُس کی مثال کی پیروی کریں۔ابطری واسیم  ۱۲ صفحہ ۱۹۵۔ ۱۹۶۔

اب ایک مسلمان نے دعویٰ کیا کہ اُس کا خیال  ہے کہ  محمد کی زندگی میں یروشلم  میں ایک مسجد تھی۔جب  مزید پوچھا، اس نے خیال کیا کہ الاقعیٰ مسجد (نہ کہ چٹان کا گنبد) ایک مسجد تھی یسوع  کے زمانے سے پہلے یہاں تمام بیٹھے ہووں بند کردیا گیا۔

اگر چہ ، یہ کوئی نظر یہ نہیں ،چونکہ یہ محض خیرخوہ خیال تھا۔

(1): اس سے پیچھے کوئی تاریخی ثوت نہیں۔

(2): ایک مسلمان تارخی ثبوت ہے جو اس سے اختلاف کرتا ہے،اور

(3): یہ کسی طرح سے بھی مسلمانوں کے مسئلے  کو حل نہیں کرے گا،  چونکہ رومی شہنشا طِطُس  کی  طرح ۷۰ میں مکمل طور پر روشلم  کوتباہ کیا۔

یروشلم میں الاقعیٰ مسجد ، مکہ میں مسجد کے ۴۰ سال تعمیر کی گئی ،بمطابق ابنِ ماجہ واسیم ۱: ۷۵۳ صفحہ ۴۱۴۔

جب عمر شہر میں نگران ہوا، تو اس نے ہیکل کے پہاڑ کی لے  جانے کا کہا(جہاں بعد میں چٹان کا گنبد تعمیر کیا گیا) وہ  ریاست کے علاقے کی بوسیدگی پر قابلِ نفرت ہوگیا،ب ب نماز کا وقت آیا تو اُس نے کسی مسیح یادگار  میں نماز پڑھنے سے انکار کردیا۔لیکن قداے کا روڈو میکسمس کی سیڑھیوں میں نماز پڑھی،جو گلی کے قریب تھی۔عمر نے مسجد میں کیونہ نماز پڑھی؟جواب ہے کیونکہ وہاں ابھی تک کوئی مسجد نہ تھی،

احادیث اور معراج کا سفر"۔۔۔رسول اللہ نے  حقیقتاً اپنی آنکھوں سے رویا دیکھی۔۔۔ رات کو اپنے رات کے سفر میں جو یروشلم کی طرف تھا(اور پھر آسمان کی طرف تھا)لعنتی درخت کا ذِکر قرآن میں کیا گیا ہےالزقون درخت ہے" بخاری واسیم ۸ کتاب ۷۸ نمبر ۶۱۰ صفحہ ۳۹۸۔جابربن عبداللہ کا بیان ہے کہ اس نے رسول اللہ کو یہ کہتے سُنا "جب  قریش کے لوگ مجھ پر ایمان نہ لائے (یعنی میرے معراج  کے سفرکی کہانی ) میں ہجر میں کھڑا  تھا  اور اللہ نے میرے سامنے یروشلم دیکھایا،اور میں نے اُن سے بیان کرنا شروع کیا جبکہ میں اس دیکھ رہا تھا"۔بخاری واسیم ۵ کتاب ۵۸ نمبر ۲۲۶ صفحہ ۱۴۲۔

دوسرے الفاظ میں،مکہ کے لوگ محمد پع ایمان نہیں  لاتے،پس محمد نے اُن سے یروشلم کے بارے میں بیان کیا یہ نہیں کہتا کہ یہ تصدیق تھی کہ محمد درست ہے،یا یہ کہ اہلِ مکہ اس کے بعد محمد پر ایمان لے آئے۔درحقیقیت  اہلِ مکہ اور مسلمانوں کے درمیان جنگیں تمام اس کے بعد تھیں۔

اب ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے، کسی آزادانہ تصدیق کے بغیر ،اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر یہ مکہ والوں کیلیے یہ "ثبوت" مکہ والو ں  کے غیر  قائل چھوڑا۔معراج کے سفر کے دوران : جب میں نے[محمد] اُسے چھوڑا۔[موسیٰ] وہ رویا۔ کسی نے اُس سے پوچھا تم کیوں روتے ہو؟ موسیٰ نے کہا، میں روتا ہوں کیونکہ  میرے بعد ایک جوان آدمی کو بطورِ نبی بھیجا گیاجس  کے پیروکار میرے پیروکاروں کی نسنت زیادہ تعداد میں جنت میں داخل ہونگےبخاری واسیم  ۵ کتاب ۵۸ نمبر ۲۲۷ صفحہ ۱۴۶۔

مسجد اقصیٰ پاک مسجد کا عمرہ کرتا ہے تو اس کے پیچھلے اور بعد  کے گُناہ معاف ہوجاینئگے،یا اُسے جنت کی ضمسنت دی جائے گی ۔لاوی اور عبداللہ کو شک تھا کہ کسی نے یہ الفاظ کہے۔۔۔"ابوداؤد واسیم ۲ نمبر ۱۷۳۷ صفحہ ۴۵۷۔

اقصیٰ مسجد یروشلم میں ، مکہ میں مسجد کے ۴۰ سال بعد تعمیر ہوئی ابن ماجہ واسیم ۱ نمبر ۷۵۳ صفحہ۴۱۴۔

پس ہم دیکھتے ہیں کہ نہ صرف محمد کے معراج کے سفر کا یروشلم میں فاصلہ غلط ہے بلکہ ہم دیکھتے ہیں معاون احادیث  ظاہر کرتے ہیں کہ مسلمان اس معراج  کے سفر کو حقیقت مانتے ہیں۔مندرجہ ذیل  میں رات  کے سفر کے متعلق کُچھ نظریات  ہیں اور  مسیحیوں کے ردِعمل۔

سورۃ ۱۷ نظریات اور ردِعمل

نظریہ1: مسجد نے ہیکل پہاڑ پر قبضہ کیا؟

اُس جگہ محمد سے پہلے  یروشلم میں کوئی مسجد تھی۔شاید وہ اس جگہ یروشلم میں بے کار نیٹھا  رہا  قدیم  زمانے سوار ہوا محمد کے زمانے  تک صرف بستر پر یروشلم  یروشلم میں بیٹھا رہا۔

ایک انڈونیشیائی کتابچہ بھی کہتا ہے کہ یہ ہیکل کے پہاڑ پر بیٹھا تھا۔کتابچہ کا عنوان تھا، اسرا اور معراج نبوی محمد نے دیکھا مصنف  الکا  کرتا ۲۰ رسیع  انحیر ۱۴۲۷ متی ۲۰۰۶  میں شائع ہوا  کہتا ہے کہ صرف بطورِ خُدا معجزات کرسکتا ہے(جیسے مسیٰ سمندرمیں سے چلا)مسلمان بطور وفادار لوگوں کا ایمان ہونا چاہیے کہ یہ وقع حقیقتاً ہوا ہے اور سورۃ ۱۷: ۱ کا حوالہ دیتا  ہے۔صفحہ ۲ میں یہ دعویٰ کرتا ہے کہ محمد  نے ٹھیک طور پر مسجد ِ اقصیٰ کی تشکیل دی ،یہ الاقصیٰ مسجد ہے کوئی چیز یا یروشلم نہیں۔

ردِعمل1: ہم جانتے ہیں کہ یہ درست نہیں یونکہ الاقصیٰ جگہ ہیکل کے پہاڑ پر ہتے،اور ہم ہیکل پہاڑ کی تاریخ اچھی طرح جانتے ہیں، کوئی ملبے کا ڈھیر کوئی باغ نہیں ہوتا،ملبے کا ڈیر پر کسی مسجد/ہیکل دوسری عبادت کی جگہ کا کوئی  ڈمانچہ نہیں۔

1: رومی شہنشاہ طِطُس  نے ۷۰ میں یہودی ہیکل برباد کردی۔دوؤد اور سلیمان دوسری عمارت کے کھنڈرات میں  کوئی مسجد تعمیر کرنے کیلیے زمین پر واپس نہ آئے،۷۰ م میں کسی ملبے کے ڈھیر کےوسط میں،مسیح کے بعد ،حتیٰ کے یوسف علی تسلیم کرتا ہےکہ طِطُس  نے مکمل طور پر ۷۰ م میں ہیکل کے پہاڑ پر عمارت مسمار کردیا۔یوسف علی کا شیہ ۲۱۶۸ کہتا ہے۔"دوردراز کی مسجد ،موریاہ کے پہاڑ پر یروشلم  میں سلیمان کی ہیکل کی جگہ کی طرف اشارہ ہے۔جس پر یا قریبب چٹان کا گنبد ہے۔ جو حضرت عمر  کی مسجد کہلاتی ہے۔یاور دوردراز کے نام سے مشہور مسجد(مسجدِاقصیٰ)عامر  عبدالملک  نے ۶۰ صفحہ[۶۸۷/ ۶۸۸ م] میں مکمل کی۔۔۔اور ۷۰ م میں شہنشاہ طِطُس  نے مکمل طور پر مسمار کردیا"۔

1ب:مزید برآں، ۱۳۸ م میں۔"۱۳۲ م میں بار  کوچیا کے باغی ہونے کے بعد"یہویوں کی شکست اختیار کرتے ہوئے  طِطُس کی نسبت یروشلم کو مکمل طور پر تباہ برباد کر دیا گیا  اس جگہ پر ہل چلایا گیا  اور نئے سرےسے  ایلیاہ کیپٹو لینا (ایلس) کے احترام میں حیدر یانس نے کھنڈرات  پر ایک شہع تعمیر کیا۔۔۔ ہیکل بخشوں وینس اور سیراپس کیلیے  مخصوص کی جاتی تھیںں اور پہلی ہیکل پر جوییٹر کییبٹوینس کا مقبرہ ترمیر کیا گیا"۔1ج: خلیفہ عمرنے پہلی الاقصیٰ  مسجد ۶۳۷/ ۶۳۸ م میں تعمیر کی عُمر نے لوگوں کو بتایا کہ اس کی مثال کی پیروی کریں کہ مسجد کی عبارت سے پہلے کوڑاکرٹ صاف کریں۔ابطری واسیم ۱۲ صفحہ ۱۹۵۔ ۱۹۶ میں

نظریہ ۲۔ ہیکل پہاڑ پر گرجا یا عبادت خانہ (یہودیوں کا)؟

اس جگہ پر یروشلم میں گرجا یا عبادت  خانہ تھا محمد اسد اپنی کنٹری دی  میسج آف قرآن

http.//bismikaallam.org/Qura/Commentary lisraahtm

کہےی ہےمحمد جسمانی طور پر سلیمان کی ہیکل تک گیاصحابہ کرام کی اکثریت کایہ خیال تھا۔اگرچہ وہ ایک اقلیت کے خیال  کا بھی ذِکر کرتا ہے۔

ردِعمل۲: ہم جانتے ہی٘ کہ یہ درست نہیں کیونکہ وہاں ملبے کا ڈھیر تھا،اور عمر نے کوئی گرجے یا یہودی عبادت خانوں تباہ نہیں کیا۔

ا: ۶۳۷ م میں عمر کے دیکھنے تک  محمد کے زمانے  سے پہلے اُس جگہ پر کوڑے  کرکٹ کا ڈھیر۔(کوئی تجویز نہیں دیتا کہ محمد کو کسی ملبے کے ڈھیر کے ساتھ کسی مسجد نے پریشان کیا)

ب: جب عمر  یروشلم میں داخل ہوا تو اُس نے کسی مسیحی یادگار کو نہ توڑنے کا وعدہ کیا۔

ج: عمر نے ایک لکڑی کی مسجد تعمیر کی،جسے الاقصیٰ کہا گیا ۶۳۷/ ۶۳۸ م ۔

نتیجہ: عمر الاقصیٰ پر کیسے مسجد تعمیر کر سکتا تھا،نہ تباہ کرتے ہوئے اور مسیحی یا یہودیوں عبادت گاہوں کو۔

یروشلم میں مسجد جہاں یہودی ہیکل کھڑی تھی۔اُس وقت یہ ایک کوڑے کرکٹ کا ڈھیر تھا۔عمر نے لوگوں کو بتیا کہ اُس کی مثال کی پیروی کریںکہ ملبے کو صاف کریں ابطری واسیم ۱۲ صفحۃ ۱۹۵۔ ۱۹۶ بنمبر ۱۲۳۴۔عمر نے سرۃ۱۷ کا شروع پڑھا بالکل یروشلم میں داخل ہونے کے بعد۔عمر نے کہا وہ عزت نہ ریںچٹان کے[گنبد]کی،بلکہ اُن کعبہ کی عزت کرنے کا حُکم دیا گیا ابطری واسیم ۱۲ صفحہ ۱۹۵ میں

نظریہ ۳:۔ یروشلم میں مختلف جگہیں:

یروشلم میں ایک مختلف جگہ جہاں محمد گیا۔محمد یروشلم گیا۔لیکن ہیکل کے پہاڑ ی نسبت کسی مختلف جگہ گیا۔(یہ ایک حتی الامکان ہے،لیکن میں نے پھر بھی حقیقتاًکسی بھی مسلمان کو اس نظریہ کو پیش کرتے نہیں سُنا)ردَعمل۳: سورۃ ۱۷ صرف یروشلم نہیں کہتیبلکہ اس کی بجائے الاقصیٰ۔تقریباً تما م مسلمان خلیفہ عمر سے،قبول کرتے ہیں کہ یہ ہیکل کے پہاڑ پر ہے۔

قرآن کے مترجم یوسف علی کے حاشیہ  ۱۲۶۸ میں،حوالے دینے کیلیے۔"دوردراز مسجد موریا۔کے پہاڑ پر یروشلم میں سلیمان کی ہیکل کی جگہکی طرف اشارہ کرتی ہے،جس پر یا قریب چٹان کا گنبد کھڑا ہے،جو حضرت عمر کی مسجد کہلاتی ہے۔یہ اور دوردراز کی مسجد نام سے مشہور مسجد(مسجد الاقصیٰ)"۔

نظریہ ۴: مختلف شہر؟

ایک مختلف شہر نہ کہ یروشلم۔محمد سے پہلے مسجد کی جگہ ہء،یروشلم کا نام سورۃ ۱۷: ۱ میں ذِکر نہیں،صرف دوردراز کی مسجد ۔یہاں  اُس کے متعلق کسی مسلمان نے کیا کہا؟

اب ہم قرآن کی اصل زبان کو دیکھیں گےاسلام میں یروشلم کا اصل نام بیت المقدس ہے،"ہیکل کا گھر "۔ تو کیوں قرآن اس اصطلاح کو استعمال نہیں کرتا؟باری باری  یروشلم کو،"اِلہ" "ایلیاہ کے زمانے کی طرف اشارہ کیا ہے؟دوبارہ قرآن  صاف طور پر اس اصطلاح کو کیو نہیں استعمال کرتا؟مسجد  الاقصیٰ کی اصطلاح کیوں استعمال کی جارہی ہے؟ شاید دوردراز کی عبادت کی جگہ،اُس وقت مکہ سے آٹھ میل دور ایک چھوٹا سا گاؤں جس کا نام آجرناہ تھا۔یروشلم کو ترجویز کرنے کیلیے کوئی ثبوت نہیں کہ دور الگ  مسجد جبکہ آجرناہ کیلیے تجویز کرنے کیلیے ثبوت ہے بُہت توجہ کے قابل،یہ ثبقوت زمانے کا حساب لگانے میں یروشلم کے حوالے دینے کی فظرت کی غلطی ہے،جبکہ معراج کے سفر کے وقت احجرناہ میں ایک مسجد تھی۔

ردَعمل ۴: اگر یہ درست ہے، تو پھر میں انداذہ لگاتا ہوں کوئی الاقصیٰ شہیدوں کی برگیدہ کا بتائے گا اور دوسرے اسلامی دہشتگرد گروپوں کا یرشلم کو بھولنے کیلیے۔ان تمام صدیوں کے بعد دوردراز مسجد اور معراج کا سفر آخر کار نہیں تھا۔کیا اس خیال کے مسلمان مُصنف اُن کو بتانے کیلیے رضا مند ہیں؟

اس نظریہ کی تفصیلات کو دیکھتے ہوئے ،سوچنے کیلیے چھ نقاط ہپیں۔

1: جبکہ قرآن بہمت المدس نہیں کہتا،احادیث ایسا کہتی ہیں۔

2: یہ عبدالملک نہ تھا جس نے سب سے پہلے وہاں مسجد تعمیر کی بلکہ عمر نے ۶۳۷/ ۶۳۸ م میں ۔

3: عمر نے کہا کہ یہ یروشکؤلم تھا سورۃ ۱۷: ۱ کا حولہ دیتے ہوئے جب وہ یروشلم میں۔

4: محمد نے خود بخاری حدیث میں کہا کہ یروشلم تھا۔

5: مسلمانوں کی اکثریت تجویز کہتی ہے کہ یروشلم ہے۔

6: تین متبرک مسلمان  شہر ہیں نہ کہ چار۔

4ا: احادیث حقیقت میں بیت المقدس کی اصطلاح استعمال کرتی ہیں(یروشلم کی)معراج کے سفر کو بیان کرنے کیلیے بخاری واسیم ۵ کتاب ۵۸ نمبر ۲۲۸ صفحہ ۱۴۸۔ ۱۴۹ میں۔

4ب: یہ عبدلملک نہ تھا جس نے یروشلم میں اصلی نسجد تعمیر کی،بلکہ خلیفہ عمر  نے اُس  سے پہلے ۔ جبکہ عبدالملک  نے ۶۸۷/ ۶۸۸ م میں چٹان کا گُنبد تعمیر کیا ،  عمر نے ۶۳۷ م میں یروشلم کا کنٹرول سنبھالنے  کے بعد الاقصیٰ مسجد تعمیر کی۔ابطری واسیم ۱۲ صفحہ ۱۹۵۔ ۱۹۶ دیکھیں۔

4ج: عمر محمد کا قریبی دوست اور ٘ھمد کی وفات کے بعد اسلام کا دوسرا خلیفہ تھا،جاننے کیلیے بہترین مقام میں ہو گا،عمر نے بالکل نسجد کی تعمیر سے پہلے سور( ۱۷: ۱ نے تلاوت کی جب وہ یروشلم آیا۔

4د: محمد نے خود کہا کہ یہ یروشلم تھا ۔"جابر بن عبداللہ سے رایت ہے کہ اُس نے رسول اللہ کو یہ کہتے سُنا۔" جب قریش کے لوگ مجھ پر ایمان نہ لائے( یعنی میرے  معراج کے سفر کی کہانی) تو میں الھجر میں کھڑا ہو گیا اور اللہ نے میرے سانے  یروشلم دیکھایا ۔اور میں نے اُنیں یہ بیان کرنا شروع کیا جبکہ میں اُسے دیکھ رہا تھا"۔بخاری واسیم ۵ کتاب ۵۸ نمبر ۲۲۶ صفحہ ۱۴۲۔ پس مکہ والوں نے محمد کا یقین نہ کیا۔اور محمد نے دعویٰ کیا کہ اللہ نے ایک دوسرا معجزہ کیا اور میرے سانے یروشلم دیکھیا ۔اس طرح محمد اُسے بیان کر سکا۔جبکہ مکہ والے جو بعد میں محمد سے لڑے نمایاں طور پر غیر قائل تھے،محمد یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ یہ یروشلم تھا۔

" ابنِ اباس سے روایت ہے: اللہ کے بیان کا لحاظ کرتے ہوئے ۔۔۔نظارے،جن کو اللہ نے معراج کے سفر میں دیکھا جب وہ بیت المقدس لے جایا گیا(یعنی یروشلم) حقیقی مناظر تھے(خواب نہیں)۔اور لعنتی درخت(ذِکر کیا گیا) قرآن میں وہ درخت زقام ہے(خود) بخاری واسیم ۵ کتاب ۵۸ نمبر ۲۲۸ صفحہ ۱۴۸۔ ۱۴۹۔

4ع: ایک مزید جدید مسلمان آواز کی بنا پر،قرآن کے مترجم یوسف علی اپنے حائپے  ۲۱۶۸ میں۔" دوردراز مسجد،موریاہ کے پہاڑ پر،یروشلم میں سلیمان کی ہیکل کی جگہ کی طرف اشارہ ہے،جس پر قریب چٹا ن کا گنبد کھڑا ہے  جسے حضرت عمر کی مسجد بھی کہا جاتا ہے۔یہ اور دوردراز کی مسجد(مسجد الاقصیٰ)کو عامر عبداملک نے ۶۸ھبح[ ۶۸۷/ ۶۸۸ م]میں مکمل کیا۔۔۔اور ۷۰ م میں شہنشاہ طَطُس نے اُے مکمل طور پر مسمار کر دیا"۔

سورۃ ۱۷ معراج کا سفر اور اسرائیل کے بہٹے دونوں کہتی ہے۔(دیکھے یعسف علی کا حاشیہ ۷۲ اور ابطری واسیم ۱۲ صفحہ ۱۹۴) مسلمان اسے اسرائیل کے بیٹے کیو کہتے ہیں؟حلانکہ اسرائیل کے ساتھ کُچھ نہیں ہوا؟

4ف: ایک مسلمان صرف تین مساجد کی زیارت کرنے کیلیے سفر کر سکتا ہےمکہ مدینہ اور یروشلم۔ ابوداؤد واسیم ۲ نمبر ۰۲۸ صفحہ ۵۴۰۔اگر مسلمان کئی زمانوں سے الاقصیٰ مسجد سے متعلو غلطی پر ہیں کہ وہ یروشلم میں ہیں  تو پھر یہ آئندہ متبرک  مسلمان شہر کہاں ہے۔جس کے متعلق تمقم مسلمان ،پہلے کے اور اب کے دونوں بے خبر ہیں؟

نظریہ ۵: ساری دُنیا مسجد ہے؟

سورۃ۱۳: ۱۵ اور ۱۶: ۴۹ کہتی ہے کہ تمام وجودات آسمان اور زمین میں اللہ کیلیے سجدہ کرنے کیلیے ہے،پس کئی مسلمان اِن کی تشریح کرتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ تمام زمین اللہ کی مسجد ہء۔پس یہاں کہیں بھی محمد گیا،ایک طرح سے ،وہ ہمیشہ کسی مسجد میں تھا۔

ردِعمل ۵: یہ قرآن میں "معراج کے سفر" کو بے معنی کردے گا اور گمراہ کریگا۔

1: اگر محمد نے پاک مسجد سے(مدینہ میں) دوردراز مسجد کی طرف سفر کیا تو پھر نے حقیقت میں کسی مسجد کا علاقہ چھوڑا اور کسی دوسری مسجد کیلیے ایک مختلف محل و وقوع کیلیے اُسے جانا پڑا۔2: اگر ساری زمین دوردراز کی مسجد ہے تو پھر عمر جو محمد کے ابتدائی ساتھیوں میں تھااور آج مسلمانوں کو غلط رہنمائی دی جارہی ہے،کیونکہ اُنہیں سکھایا گیا ہے کہ دوردراز کی مسجد یروشلم میں ہے۔اگر آپ محض اسلیے اس پر یقین کرنے کا دعویٰ نہیں کتےلیکن سنجیدگی سے یقین کرتے ہو کہ دوردراز مسجد یروشلم میں نہ تھا،تو مبارک ہو تم نے صرف مورق اسطی میں امن مسئلہ حل کردیا۔

نظریہ ۶: یروشلم میں مسجد ایک جگہ تھی نہ کہ کوئی عمارت،لوگ خُدا کیلیے نماز کہاں پڑھتے تھے؟                                                                 ایک مسجد زمین پر کوئی جگہ جہاں مسلمان نماز ادا کرتے ہیں،اور مسلمان خیال کرتے ہیں کہ ابرہام،داؤد،یسوع وغیرہ مسلمان ہی تھے،پس اگرچہ حتیٰ کہ وہ جگہ اس وقت کوڑا کرکٹ کیلیے استعمال کی جاتی تھی، محمد اُس جگہ گیا جہاں یودیوں کی ہیکل ہوا کرتی تھی۔

ردِعمل۶: بخاری واسیم ۵ کتاب ۵۸ نمبر ۲۲۶ صفحہ ۱۴۲ اِس کو غط ثابت کرتی ہے،یہ کہتی ہے،"جابربن عبداللہ سے روایت ہے کہ اُس نے اللہ کے رسول کو کہتے سُنا "جب قریش کے لوگوں نے مجھ پر یقین نہ کیا(یعنی میرے معراج کے سفر کی کہانی)میں الحجر میں کھڑا تھا اور اللہ نے میرے سانے یروشلم دیکھایا،اور میں نے اُنہیں اس کے متعلق بیان کرنا شروع کیاجبکہ میں اُسے دیکھ رہا تھا"۔اس سلسلے میں، شاید کُچھ مکہ کے تاجروں نے یروشلم کا سفر کیا ہو۔کہیں بھی کوئی تحریر نہیں کہ کسی غیر قوم مکہ والے محمد سے قائل ہوئے ہوں۔

جب تک کوئی ایمان نہیں رکھتا کے محمد نے ملبے کے ایک ڈھیر کو بیان کرکے  مکہ والوں کو متاثر کرنے کی کوشش کی تا اُس کا مطلب ہے کہ محمد ایک مختلف اور بے وجود جگہ کا ذِکر کر رہا ہے۔اب کسی مسلمان نے مُجھے بتایا کہ چونکہ محمد ؐ کا مافوق الفطرتسفر رات کو تھا تو اس نے سارا کوڑاکرکٹ نہیں دیکھا،تاہم،محمد نے سارے وسیع شہر کے کوڑے کرکٹ کی بو سونگھی۔ اور محمد نے دیکھا کہ وہاں کوئی عمارت نہیں تھی۔اگر کوئی کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر جاتا ہےاور وہ کوئی چیز نہیں سنگوتے تو وہ کوئی چیز نہیں دیکھتے۔اور وہ کسی چیز کے اندر نہیں گئے  تو پھر میں سوال کرتا ہوں کہ آیا وہپ واقعی اندر گئے یا کوڑاکرکٹ پر۔

فرار ہونے کیلیے منصوبہ بنانے کیلیے تلاش کرنا

معراج (رات کا سفر)کے اختلاف  کو بیان کرنے کی کوشش کرنا، مندرجہ زیل وضاحتیں مزید مایوس کُن ہے ۔ایمانداری سے یہ ذِکر کرناچاہیے کہ یہ تینوضاحتیں،بُہت سے مسلمانوں کیلیے قابلِ قبول نہیں ہیں۔

نظایہ۷: یہ صرف ایک رویا تھا، محدمد کہیں نہیں گیا معراج صرف ایک رویا تھا۔

اس طرح ٘ھدم نے خیال کیا گیاکہ وہ کہیں گیا لیکن غلط فہمی تھی۔اس کے بعد محمد کو حقیقتاً معلوم ہوا کہ وہ حقیقتاًکہیں نہیںگیا،لیکن اُس نے اپنے پیروکاروں کو اِسے ماننے کی رہنمائی کی۔

مسلمانوں کی وسیع اکثریت معراج   پر اصرار کرتی ہے(رات کا سفر) کہ وہ ایک طبعی واقعہ ہے۔لیکن کُچھ مسلمان بحث کرتے ہیں کہ محمد نےحقیقتاًانِ جگہوں نہیں کیا،لکن صرف حقیقتاًواقعہ نہیں ہوا۔

ردِعمل۷: تصورکریں آج کسی مسیح نے کہا کہ اُس نے مدینے کے گرجے کی زیارت کی؟آپ کیسے جانیں گئیں کہ یہ غلط ہے؟حتیٰ کہ آپ نے ہر طرح سے مسیح کی پیروی نہیں کی۔تم جانو گے یہ غلط ہے۔کیونکہ مدینے میں کوئی گرجا نہیں ۔اگر مسیحی نے کہا کہ کوئی مسجد ایک گرجا ہے تو تم کہو گے کہ یہ معلومات سچی نہیں۔اگر مسیح نے کہا کہ یہ صرف شنیہیاً تھا۔و یہ غلط ہوگا اگر لوگوں نے کہا کہ یہ ایک حقیقی معزہ تھا۔اسی طرح، اگر کسی مسلمان نے دعویٰ کیا کہ اُس نے کسی مسجد کی زیارت کی تو یہ یہاں بے وجود ہے،یہ وہی ہوگا،ایک مسلمان محمد کے متعلق کہت ہوئے اس میں دونتائیج ہیں ۔پہلا یہ کہ قرآن خاص طور پر کہتا ہے  کہ وہ "اُٹھا یا گیا" یا لیا گیا۔ترجمہ پر انحصار کرتے ہیں یہ معجزہ کسی مسلمان نے قرآن کیلیے بطورِ ثبوت پیش کیا۔اگر محمد صرف  اپنے خواب میں یروشلم گی،اور قرآن  کا یہ ثبوت صرف اس کے ذہن تصور ہے، پھر دوسری چیزیں بھی بطورِ بیرونی واقعات پیش کی گئیں۔

سُنی مسلمان شریعہ کہتی ہے کہ ہ حقیقی تھا۔"ابنِ عباس سے روایت ہے: اللہ کے بیان کو مدِنظر رکھتے ہوئے۔۔۔ مناظر جو اللہ کے رسول کو معراج کی رات دکھا ئے گئ جب وہ بیت المقدس لے جایا گیا(یعنی یروشلم) حقیقتاً تکارے تھے۔(نہ کہ خواب)اور لعنتی درخت (ذِکر کیا گیا) کا ذِکر قرآن میں ہے یہ زاقم کا درخت ہے(بذاتِ خود)"۔ بخاری واسیم ۵ کتاب ۵۸ نمبر ۲۲۸ صفحہ ۱۴۸۔ ۱۴۹۔ تاہم، اگر کوئی مسلمان بحث کرتا ہے کہ بخاری (قرآن کے بعد ، شریعہ میں اعلیٰ ترین اختیا ہے) یہاں یہ غلط ہے،کہ محمد نے حقیقتاً ان جگہوں کا سفر نہیں کیا،لیکن صرف ایک رویا تھا کہ وہ ان جگہوں پر گیا،تو پھر رات کا سفر رونما نہیں ہوا۔سورۃ ۱۷: ۱ نے لاکھوں مسلمانوں  کو ایک غلط چیز پر ایمان لانے کیلیے رہنمائی کی، یعنی ایک جھوٹ جو اللہ اور محمد کے متعلق ہے۔

نظریہ ۸: محمد کا سفر کرنے کا وقت؟

وقت کے حساب میں اس گلطے کیلیے سفر کرنے  کا وقت ایک وضاحت ہے،

ردِعمل ۸ : سگر یہ ایجاد کردہ تفسیر درست تھی۔اگر محمد واقعی سفر کرنے کا وقت مقرر کر کا تو یہ لا جواب سوالات کے مختلف چیزوں کے مجموعے  کو کھولتی  ۔

زمانہ اُس نے لیا اُس نے روزِ عدالت کیو نہ لیا؟ اُس دوسرے  انبیاء کیلیے وقت کیو نہ لیا  جب وہ زندہ تھے ؟ اگر حقیقی  طور ہر اس وقت سفر کے نظریے لیتے ہیں تو تمہیں منطقی سوالات کی تلاش میں دلچسپی لینی چاہیے  جو ایک بظریہ ایسے سوالات کھولتی ہے۔

 نہ صرف سورۃ ۱۷: ۱معراج (رات  کا سفر) پیش کرتی ہے وقت کے اندر بطور حقیقی ثبوت کے۔اگر معراج وقت سفر کا ایک واقعہ ہے تو اللہ نے صرف ابتدائی مسلمانوں کو گمراہ کیا،بلکہ تقریباً تمام زمانوں  ہر ایک مسلمان کو سوچنے میں کہ یہ ایک حقیقی واقعہ تھا۔

تاہم،یہ ایک عجیب طریقے میں مسلم نظریے کے ساتھ ملتیِ جُلتی ہوگی۔مسلمانوں کا یقین ہے کہ وہ حقیقی یسوع نہ تھا جو صلیب پر مرگیا،اللہ صرف ایک اور اُسی طرح کا یسوع بنادیا۔پھر بھی اللہ،بائبل کے مصنفین  میں سے  کسی  کو نہ بتا سکا ،یا کسی ابتدائی مسیحی  کو اس ایمان کے متعلق جو مسلمانوں نے ایک عظیم موضوع بدل ڈالا،

ہمیں دوبارہ پوچھنا ہے کہ یہ ایسا کیوں ہے۔ اللہ  اُس شاطرانہ  وتق  سفر کو جو محمد کیلیے تھا کیو نہ استعمال میں لایا اور اور اُس کی وضاحت نہ کی، پھر بھی مسیحیوں کو یسوع کی دوسری شخصیت  کا مکاشفہ نہ دیا،اگر اللہ نے کسی کو بغیر بتائے وقتِ سفر استعمال کیا،اور پھر سورۃ ۱۷ میں شکل دی کہ اُس نے نہیں کیا،پھر سورۃ ۸: ۳۰  یقیناً درست ہے:" اللہ سب سے بڑا اور مکر والا ہے"۔

نظریہ ۹: قرآن میں ایک غیر مُستند  تبدیلی؟

قرآن میں ایک غیر مستند اضافہ  ہر چیز  بیان کرتا۔محمد سے غلطی نہ ہوئی اور محمد نے جھوٹ نہ بولا،یہ محمد کے مکاشفے میں قرآن نہ تھا،بلکہ بعد میں کسی جعل ساز نے اس میں اضافہ کردیا۔

ردِعمل ۹: اکثر سُنی مسلمان اس دلیل کو نہیں لیں گے، لیکن کُچھ شیعہ اور صوفی اور دوسرے، یہ کہنے میں آزاد ہیں  کہ عثمان اور دوسرے سُنیوں  نے قرآن تبدیل کردیا۔لیکن اگر یہ بیان کردہ حقیقت میں صرف ایک تبدیلی  ہے تو پھر  قرآن میں کیا تبدیل کیا گیا؟ہم ابتدائی قرآن کے ترجمے  کا موازنہ مختلف  کر سکتے ہیں۔لیکن خلیفہ عثمان نے اُس میں سے تقریباً تمام جلادیا۔جس میں سے اکثر تبدیلیاں چھُپ گئیں۔ہمارے پاس سورتوں کی فہرست ہےاور سورتوں کے حصے  جو بچ گئے اور مختلف ہیں،لیکن سورۃ ۱۷ پر بطورِ مختلف نہیں دکھاتے۔

نظریہ۱۰: معراج کی اصلی جگہ مسئلہ نہیں؟؟؟

 جبکہ کُچھ مسلمان سورۃ ۱۷: ۱ کو قرآن کا بطورِ اءیک تاریخی معتبر ثبوت ہے۔ دوسرے کہتے ہیں ہ سورۃ ۱۷ کی پوزیشن جو ثابت مہیا کرے گی، اس کا مسئلہ نہیں۔

ردِعمل۱۰: یہ مسلمانوں کیلیے اُمید کا آخری قلعہ  ہے  جو قرآن میں اعتماد برقرار رکھنا چاہتا ہپے جبکہ محمد نے رات کے سفر کیا، اور یہ کہ ع رات  کا سفر یروشلم کی طرف بُہت بڑا معاملہ ہے اگر کوئی قرآن کی تاریخی سچائی پرکھے۔مسلمان اساتذہ محمد کے یروشلم کے طرف سفر کابیان کررہے ہیں۔اور وپ قرآن کے مُستند ہونے کا ثبوت پیش کررہے ہیں۔ اگر آپکو معلوم ہوجائے کہ محمد یروشلم نہیں  کیونکہ وہاں اس وقت کوئی مسجد نہ تھی،اور کوئی دوسری  بنیادی وضاحت اسِکے  علاوہ نہیں

" یہ مسئلہ نہیں ہے:۔ تو بطورِ مسلمان آپکا یہ فرض ہے کہ اپنے لیڈروں کو روکیں کہ ایسی کافرانہ تعلیم  کی حمایت نہ کریں۔

 

 کوئی  دوسرا  رات  کا  سفر

جبکہ  اس رات کے سفر کا کوئی گواہ نہیں،کہ یہ کسی مسجد کی طرف تھا جہاں کوئی مسجد موجود نہ تھی،اور قریش کے لوگوں کو اطلاح دی جو قائل نہ ہوئےلیکن یروشلم کی طرف دوسری رات کے سفر کے بارے میں خیال ہے؟

بالکل اسکی گرفتاری اور اُسکے دُکھ سے پہلے یسوع اپنے  شاگردوں کے ساتھ زیتون کے پہاڑ سے یروشلم کی طرف گیا۔ یسوع جانتا تھا کہ یہودہ اُسے پکڑوائے گا اور گرفتار کروائیگا، پس یسوع آسانی سے دوسری جگہ واپس جاسکتا تھا۔ کوئی شخص نہیں کریگا  لیکن یسوع نے مرضی سے حالات کو برداشت کرنا،چُنا اور اُس نے موت پر فتح کیلیے کیا اور شیطان پر اپنی  موت کے وسیلے صلیب پر اور زندہ ہو کر۔

کُڑ کُڑ کرنے کا وقت

پس تم کیا یقین کرتے ہو؟کیا تمہیں قرآن پر یقین ہےجو سکھاتا  ہے کہ محمد ایک مسجد کی طرف گیاجو اُس وقت موجود ہی نہ تھی؟یہ مسائل آپکو صرف ہاتھ لہراتے نہیں جانے دیتے ۔صرف منطقی وضاحت  جو سچائی  ہو سکتی  ہے  کہ قرآن اصتلافات پر مبنی نہیں ہے۔ میری خواہش ہے کہ ہر مسلمان ان سوالات  کو اختیاط سے سوچے  اور سچے خُدا کی پیروی  کریگا۔ضُدا آپکو اطمینان دے گا۔

حاشیے

۱:سورۃ ۱۷" رات کا سفر کہلاتی ہے" اربری میں، دوؤد، روڈویل، یوسف علی ، انگریزی میں،یہ اسرائیل کے بچے  کہلاتی ہے" یوسف علی عربی میں ،پکتھل، ملک، شاکر، شیر علی۔ یہ ابطری واسیم ۱۲ صفحہ ۱۹۴ حاشیہ ۷۲۲ کے مطابق  دونوں کہلاتی ہے۔

۲: ابطری واسیم ۱۲ صفحہ ۱۹۴ کے مطابق عمر نے یروشلم داخل ہونے پر سورۃ ۱۷ تاوت کی۔

۳: یاں یہ کہ جب سورۃ ۱۷ مختلف وسائل کے مطابق ظاہر ہوئی۔یہ مسئل تمام معاہدے  میں تھی۔سوائے اِس کے کہ یوسف علی  زیادہ تفصیل دیتا ہے۔

شیر علی ۔ ہجرا سے پہلے

ملک ۔مکہ میں

ایم۔ ایم، پکتھل۔ مکہ میں  ظاہر ہوئی۔

یوسف علی کا سورۃ ۱۷ کا تعارف۔"عام طور پر مورخہ رجب کی ۲۷ ویں رات (اگر چہ دوسری تاریخیں  ۱۷ویں رجب کی ہجری سال سے پہلے۔ یہ سورۃ کی شروع کیآیت کو قائم کرتی ہے،اگرچہ سورۃ کے ہے کُچھ، یر پہلے تھے"۔

۴۔ (تھامس اے۔  انڈینوپولس۔"یروشلم کو برکت دی  گئی۔ یروشلم پرلعنت کی گئی "۔ (۱۹۹۱)۔صفحہ ۲۱۳۔ ۲۱۱۴)۔

۵۔(کیرن آرمسڑونگ"یروشلم"۔(۱۹۹۶) (صفحہ۲۲۹)۔

۶۔ عمرنےوعدہ کیا تھا کہ کو صلیب یا گرجا تباہ نہیں کیاجائےگا۔ ابطری واسیم ۱۲۱صفحہ۱۹۱ میں۔

۷۔ اِلایا یروشلم کانام تھا بمطابق بخاری واسیم ۱: ۶ صفحہ ۱۲۔

۸۔ اولیگ گرابر،"امعایاد ڈوم آف دی راک یروشلم میں" آدس اوینٹسلز واسیم ۳(۱۹۵۹)،صفحہ ۳۷۔

 

ضمیمہ۱۔سورۃ ۱۷:۱ مختلف تراجم میں

اس سورۃ کے دو نام ہیں:"رات کا سفر " "اسرائیل کے بچے بھی"۔

آرتھر جے آربری"اُس کو جلال جس نے اپنے بندہ  کو پاک مسجد سے دوردراز کی مسجد تک لے گیا جس میں ہم نے خوبیاں رکھی ہیں کہ دکھاویں اسکو کُچھ اپنی قدرت نے نمنے وہی ہے سُنتا، دیکھتا"۔

این۔ جے۔ دوؤد"وہی پاک ذات ہے جو جس نے اپنے بندہ کو پاک ہیکل سے دور ہیکل تک رات کا سفر کروایا  جسکی گردونواح کو ہم  برکت بخشی،کہ ہم  اُسے کُچھ اپنی نشایاںدکھایں ۔ وہ اکیلا سب  کُچھ سُنتا اور دیکھتا ہے"۔

محمد  فاروق اعظیم ملک کے القرآن کا انگریزی ترجمہ(۱۹۹۷) دی انسٹیٹیوٹ آف اسلامک نابح۔

ایم۔ایم۔ پکتھل"اس  کے نام کو جلال جو اپنے بندہ کو رات کو متحرم پرستش کے مقام سے ایک دوردراز  پرستش کی جگہ پر لے گیا جس کے ارد گرد ہم نے برکت دی،کہ ہم اپنی نشانیوں میں سے دِکھا سکیں، دیکھو، وہی، صرف وہی سُننے والا، دیکھنے والا ہے"۔

جے۔ ایم۔ روڈویل "اس کے نام کو بزرگیجو اپنے بندہ کو رات  کے وقت مکہ  کی مقدس ہیکل سے اس ہیکل میں لے گیا جو بالکل الگ ہےجسکے گردونواح ہم نے برکت بخشی کہ ہم  اسے اپنی نشانیوں میں سے دکھایں،  کیونکہ وہ سُنے والا اور دیکھنے والا ہے"۔

ایم ۔ ایچ۔ شاکر" اسکو بزورگی جس نے اپنی بندہ کو رات کے وقت پاک مسجد سے دوردراز الگ مسجد تک لے گیا جسکے گردو نواح ہم نے برکت دی،اسی طرح ہم کُچھ اپنی نشانیوں میں دکھا سکیں ،یقیقناً وہ سُنتا اور یکھتا ہے۔

عبداللہ یوسف علی " اسکو (اللہ ) بزرگی جس نے اپنے بندہ کو لیا کہ رات کو پاک مسجد سے دوردرز مسجد تک سفر کرائے۔جسکے گردونواح ہم نے برکت بخشی۔اسلیے کہ ہم اپنی نشانیوں میں سے کُچھ اسے دکھا سکیں: کیونکہ وہی ایک ہے جو سُنتا اور (تمام چیزیں) دکھاتا ہے"۔

ضمیمہ ۱۱۔ سورۃ ۱۷:۱ میں درحقیقت دوردراز کی  مسجد کہاں ہے؟

یہاں تین خیالات ہیں۔

۱۔ خلیفہ عمر نے  بیان کردہ جگہ پر الاقصیٰ مسجد تعمیر کی۔

۲۔ تاہم، چٹان مسجد کا گنبد وہاں ہے جو بُہت سے مسلمانوں کا خیال ہے جہاں محمد آسمان پر گیا۔"مسجد شکل میں ہشت پہلو ہے جسکی آٹھ طرنین ہیں۔ہر  طرف ایک دروازہ اور سات کھڑکیاں ہیں،جسکے ساتھ چٹانی کرستل سنگ تراشی ہے۔گنبد سونے کا بنا ہوا ہے۔بالکل درمیان میں،مسد میں ایک متبرک پتھر ہے، جس پر نبی محمد، آسمان پر اُٹھانے سے پہلے کھڑا ہوا"۔

(http://www.aslamicarchitacture.org/ia/archi/dome oftherock.html, May 3, Qoo4 2004 May 3)

۳۔ سارا ہیکل کا پہاڑ(۳۴ ایکڑز)عامر مجل وقوع تھا۔بمطابق

http;//www.aslamicarchitecture.org/ia/archi/alaqsa mosque.html 2004 May 23

"عمارت مسجد الاقصیٰ کے نام سے مشہور ہوگئی،اگرچہ حقیقت میں ،پاک ہیکل کا سارا  علاوہ مسجد الاقصیٰ ہی خیال کیا جاتا ہے تمام گردونواح اسلامی قانون کے مطابق واجب التعظیم ہے۔

یہ جگہں کہاں ہیں؟ نیچے نقشہ دکھاتا ہے کہ وہ کہاں ہیں۔

غور کریں کہ جبکہ مسلمان خود باصنابطہ طور پر اس جگہ پر مُتفیق نہیں،الاقصیٰ مسجد اور چٹان کا گنبد صرف زیادہ گز کے فاصلے پر ایک دوسرے سے ہیں۔وہاں کوئی مسجد نہیں۔

ضمیمہ ۱۱۱۔یروشلم عمارت کی ایک مختصر تاریخ

۵۷۶ ق م میں نبوکدنفر نے یروشلم اور سلیمان کی ہیکل کو تباہ کردیا تھا۔

۱۶۸ ق م میں انطوپس اپنی فینسی نے ہیکل تباہ کی۔ا نے اپنے فوجی دستوں کیلیے ایک جائے پناہ تعمیر کی، جسے اکا کہا جاتا تھا، جو غالباً مسجد الاقصیٰ جہاں آج کھڑس ہے اسکے شمال  مشرق میں ہے۔سائمن میکا بیوس اکرا کو تبہ کردیا پہاڑی سے نیچھے جس پر اکرا کھڑا تھا، اور ۳۷ ق م میں ہیر دیس اعظم یہوداہ کا بادشاہ بنا اُس نے ہیکل  کو دوبارہ تعمیر کیا۔۷۰ م میں ططس نے ہیکل کو تباہ کیا۔۱۳۲م میں " بارکوچبا کی بقاوت کے بعد ۱۳۲ م میں، یہودیوں  کی شکست ہوتے ہوئے  ططس نے مزید مکمل طورپر یروشلم کو تباہ کردیا۔ اس جگہ ہل چلا دیا گیا اور ایک نیا شہر بنا دیا گیا۔ پہلی ہیکل کے اُوپر جو پیڑ کییپٹولینس تعمیر کیا گیا"۔انسائیکلوپیڈایابرئینکا(۱۹۵۶) واسیم ۱۳ صفحہ ۸۔ دی انسائیکلوپیڈیابرلئینکا (۱۹۷۲)واسیم ۱۲ صفحہ ۱۰۰۹ کہتا ہے کہ ہیکل کا علاقہویران چوڑ دیا گیا۔۱۳۶ م میںشہنشاہ قسطنطین نے گرجا گھر تعمیر کرنے کا حُکم دیا: پاک سیویچر  چرچ، یہاں وہ خیال کرتے تھے کہ یسوع تین دِن تک دفن رہااور بیسیلیک آف دی کراس جہاں اُن کا خیال  ہے کہ یسوع کو مصلوب کیا گیا۔۳۲۶۔ ۳۳۶ م میں چرچ آف دی ہولی سییویچر اور بیسیلیکا آف دی کراس ،اُس جگہ تعمیر کیے گئے جہاں اُن کا ایمان ہے کہ یہ یسوع کا مقبرہ اور کلوری کی جگہ ہے۔اگرچہ یہ ہیکل کی جگہ نہ تھی۔ ۴۶۰ م میں شہنشاہ یوڈشیا نے مزید  چرچیز تعمیر کروائے، بشمول  ایکسلوم پول کے اوپر دوسرا دمشق گیت کے شمال میں جہاں اُن کا خیال  ہے کہ ستفنس کا مقبرہ ہے کہ اوپر تعمیر کروایا۔۶۱۴م میں فارس کے چوسروز ۱۱ نے یروشلم کو اسیر  کرلیا،۶۰۰۰۰ مسیحی ماردیے اور ۳۶۰۰۰ کو غلام بنایا۔اُ سنے بُہت سی عمارات کو نقصان پہچایا اور کئی چرچیز کو تباہ کیا ۔بشمول چرچ آف ہولی سیپولچر ۔ ابطری واسیم ۵ صفحہ ۳۱۸ بھی یہ تحریر کتا ہے۔۶۱۴ م میں دی انسائیکلوپیڈیا برئنیکا (۱۹۷۲) واسیم ۹ صفحہ ایف ۱۰۰ کہتا ہے کہ ہشت پہلو ہولی سیپو لچر کا گول کمرہ فارسی تباہ کاری کے باوجود کھڑا رہا۔تاہم، یہ مقبرہ کی جگہ پر تھا نہ کہ یہودی ہیکل پر۔"دی ٹیمپل ماونٹ (قدرا یا مربع کہلاتا ہے)قائیم رہا جسے ہیرودیس کی احاطہ بندی کی دیوار نے شکل دی۔الطویقہ کے قلعہ کے کھنڈرات ،اس کے شمال مغربی کونے میں  ابھی تک نظر آتے ہیں،لیکن ہیکل کا علاقہ جس پر جو پیٹر ہیکل کے کھبڈرات کھڑے ہیں۔ جسے ہیڈریان نے تعمیر کیامسلمانوں کے زمانے تک شہر کے کوڑا کڑکٹ کے ڈھیر  استعمال ہوتے تھے۔۶۲۹ م میں ہیراکلیس جو سرور کو شکست دی اور دوبارہ یروشلم میں داخل ہو گیا۔۶۳۷/ ۶۳۸ م  یروشلم عمر کے حوالے ہوگیاجا نے کہا کہ کوئی صلیب یا چرچ توڑا نہ جائے ۶۳۷/ ۶۳۸ م عمر نے ایک لکڑی کی ایک مسجد بنائی جسے الاقصیٰ  کہا گیا۔۶۸۷/ ۶۸۸ م خلیفہ عبدالملک الاقصیٰ کو دوبارہ تعمیر کیا اور چٹانی گنبد کی تعمیر کی۔۱۵۱۷ م ترکی کے سیلم (گرم)نے نے مصریوں سے یروشلم فتح کر لیا،اور شہر کی بیرونی دیواریں اۃسکی وجہ سے ہیں۔انسایکلوپیڈیابرٹنیکا(۱۹۵۶) واسیم ۱۳صفحہ ۸ مزید معلومات کیلیے دیکھیں۔

ضمیمہ۴ ۔ کیا سورۃ ۱۷: ۶۰ بھی اُسی رات کی رویا کی طرف اشارہ کرتی ہے؟س

سورۃ۱۷: ۶۰ کہےی ہے:"۔۔۔اور جب کہ دیا ہم نے تجھ سے کہ تیرے رب نے  گھیر لیا لوگوں لوگوں کو اور  وہ دکھاوا جو تجھ کو دکھایا ہم نے سو جانچنے کے اور وہ  درخت جس  پر پھٹکار ہے قرآن  میں اور ہم اِن کو ڈراتے ہیں تو ان کو زیادہ ہوتی ہے  بڑی شرارت" (اے یوسف علی کا ترجمہ)

یوسف علی کا حاشیہ ۲۲۴۹ کہتا ہے"
 ُچھ مفسرین اسے اسطرح لیتے ہیں کہ مراہ(۱۷: ۱)کی طرف اشارہ ہے اور دوسرے دوسرے رویاؤں کی طرف۔ایسے رویا معجزات ہیں۔اور بے ایمانوں کیلیے رکاوٹ بن جاتے ہیں۔یہ اہلِ ایمان کیلیے حوصلہ ہے۔پس وہ آدمیوں کی طرف ایک آزمائش ہیں"۔

تاہم بخاری والیم ۸ کتاب ۷۷ نمبر ۶۱۰ صفحہ ۳۹۸ کہتی ہے۔۔۔ابنِعباس  سے روایت ہے آیت  کے لحاظ سے  (اور ہم نے رویا دیا(آسمان پر اُٹھا لیاجا تا، معراج)  جس سے ہم نے تمیں دکھایا(اے محمد طور ایک اصل گواہ کے)لیکن انسانیت کیلیے طور ایک آزمائش۔(۱۷: ۶۰):رسول اللہ نے حقیقتاً پنی آنکھوں سے رویا دیکھا(تما چیزیں جو اُسے دکھائی گیئں) اس رات جس رات وہ یروشلم کی طرف سفر کیلیے گئے(ور پھر آسمان کی طرف)۔پھٹکا والا درخت جس کا ذِکر قرآن میں کیا گیاوہ ازاقم کا درخت  ہے"۔غور کریں کہ واین کے ندر حصے عربی میں نہیں ہے لیکن مسلمان مترجم نے شامل کئے ہیں۔واین کے اندر حصے اگرچہ کوئی چیز تبدیل نہیں کرتے: بخاری تحریر  کرتا ہے کہ بنِ عباس نے کہا یہ حقیقتاً یروشلم تھا۔

کہ اُس نے اللہ کے رسول کو کہتے سُنا"جب قریش کے لوگوں نے مجھ پر یقین نہ کیا(یعنی میرے رات کے سفر کی کہانی)،ممیں الجر میں کھڑا تھا اور اللہ  نے میرے سامنے یروشلم دکھایا اور یا میں نے اُسے اُن سے بیان کرنا شروع کردیا جبکہ میں اُسے دیکھ رہا تھا۔"بخاری والیم ۳ ۵۸ سنق ۴۰ نمبر ۲۲۶ صفحہ ۱۴۲۔