اسلام میں احترام کا تصور

یہ کاغذ اطلاع دیتا ہے  کہ اُس کے بارے ابتدائی مسلم ذرائع کیا کہتے ہیں اور کُچھ سوالات بھی کرتے ہیں کہ کیوں۔ جبکہ احادیث کے جوابات محمد پر تنقید کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں،ہمارا مقصد بے حرمتی کرنا نہیں یا اُس کے بارے کوئی بُری چیز بنانا۔اگر آپ کے پاس ان سوالوں میں سے کسی ایک کا جواب ہو تو مہربانی کر کے  

www.Muslimhope.com

پر جائیں اور ہمیں ای میل کریں۔ ہم ان سوالوں کے جوابات مسلمانوں کے لیے اشاعت کرنا چاہتے ہیں۔

مردوں کے ساتھ لین دین میں احترام

تصور کریں کہ آپ ایک قتل کا امتحان دیکھ رہیں ہیں۔مدعا علیہ کھانا اُدھار لینے کے لیئے اپنے دوست کے پاس گیا۔اُس نے دھوکے سے دعویٰ کیا کہ اُسے ضرورت ہے کیونکہ وہ زکوٰۃ ادا کر رہا ہے (مسلمانوں کے لیئے خیرات)۔بعد میں مدعا علیہ رات کو واپس آیا اور اگرچہ یہ لیٹ تھا،اُس نے اپنے دوست کو کسی بھی طرح کرنے دیا کیونکہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ سخی بننا چاہتا تھا۔پس مدعا علیہ نے اُسے دھوکے سے قتل کر دیا۔آپکے مُلک میں کیا ہونا چاہیئے، آپ کی رائے میں،مدعاعلیہ کے لیئے جس نے یہ کیا؟ وہ ہونا چاہیے۔

۱: سزائے موت۔

۲: دوسری سزا۔

۳: رہا کر دینا، اُسکے دھوکے کے باوجود۔

کُچھ بخاری احادیث

کُچھ سابقہ معروضی عدالتی مقدمے اور مندرجہ ذیل میں مشاہبات دیکھتے ہیں،بخاری والیم ۵ کتاب۵۹ نمبر ۳۶۰ صفحہ ۲۴۸ کعب بن الاشریعف کے قتل پر بحث کرتی ہے۔(۳۶۹) جابر بن عبداللہ سے روایت ہے: رسول اللہ نے کہا،  کعب بن الاشریف کو قتل کرنے کے لیئے کون راضی ہے جس نے اللہ اور اس کے رسول کو زخمی کیا؟ چنانچہ محمد بن مسلما یہ کہتے ہوئے اُٹھا کہ اے اللہ کے رسول ! کیا تم پسند کرو گے کہ میں اُسے قتل کردوں؟نبی نے کہا، ہاں۔ محمد بن مسلمانے کہا، پھر مُجھے ایک بات کہنے کی اجازت دو ( یعنی کعب کو دھوکا دینے کی)۔نبی نے کہا،  تم یہ کہہ سکتے ہو۔تب مُحمد بن مسلما کعب کے پاس گیا اور کہا،وہ شخص (یعنی محمد ہم سے صدقہ مانگتا ہے (یعنی زکوٰۃ) اور اس نے ہمیں پریشان کیا ہے اور میں تم سے کُچھ اُدھار مانگنے آیا ہوں۔اس پر ، کعب نے کہا،اللہ کی قسم، تم اس سے تھک جاؤ گے ، محمد بن مسلما نے کہا، اب جیسا کہ ہم نے اُسکی پیروی کی ہے، ہمیں اُسے اُس سے وقت تک نہیں چھوڑنا جب تک یہ نہ دیکھ لیں کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔اب ہم تم سے لدا ہوا ایک اُونٹ یا دو کھانے سے لدے ہوئے چاہتے ہیں۔(ایک اُونٹ یا دو کے بارے کُچھ  فرق ہیں) کعب نے کہا، ہاں (میں آپکو اُدھار دوں گا)تُمہیں مُجھے کُچھ ضمانت دینا ہوگی۔محمد بن مسلما اور اُسکے ساتھی نے کہا،تم کیا چاہتے ہو؟کعب نے جواب دیا، اپنی عورتیں میرے لیئے ضمانت دے دو۔اُنہوں نے کہا، ہم اپنی  عورتیں تمہارے پاس کیسے گِروا رکھ سکتے ہیں اور عرب نے خوبصورت ترین ہو؟ کعب نے کہا پھر تم میرے لیئے اپنے بیٹے گِروا رکھ دو۔اُنہوں نے کہا ہم اپنے بیٹے آپ کے لیئے کیسے گِروا رکھ سکتے ہیں؟ بعد میں وہ لوگوں کے کہنے پر غلط استعمال کریں گے کہ کہ فلاں فلاں کو و خوراک سے بھرے اُونٹ کے بدلے گِروا رکھا ہے۔یہ ہمارے لیئے بڑی بے عزتی کا باعث ہو گا،لیکن ہم اپنے ہتھیار گِروا رکھ دیں گے۔محمد بن مسلما اور اُسکے ساتھ نے کعب سے وعدہ کیا کی محمد اُنہیں واپس کردے گا۔وہ رات کو کعب کے عزیز بھائی ابو نیائلہ کے ساتھ آیا۔کعب نے اُنہیں اپنے قلعہ میں دعوت دی اور وہ اُن کے ساتھ گیا ۔ اُس کی بیوی نے اُس سے پوچھا کہ تُم اس وقت کہاں جارہے ہو؟ کعب نے جوااب دیا، کوئی نہیں بلکہ محمد بن مسلما اور میرا (عزیز) بھائی ابونیائلہ آئے ہیں؛ اُسکی بیوی نے کہا، میں ایک آواز سُنتی ہوں جیسے خون کے قطرے گَر رہے ہوں: کعب نے کہا، کوئی بھی نہیں بلکہ میرا عزیز بھائی ابونیائلہ اور محمد بن مسلما ہے ایک سخی آدمی کو رات کو دی گئی  دعوت کا جواب دینا چاہیے اگر وہ دو آدمیوں مدعو کیا گیا ہو۔(کُچھ دوسرے بیان کرنیوالے آدمیوں کا ذکر کرتے ہیں، جیسے ابو ابزبن جبار، اکارث بن اوس اور عبدبن بشر پس محمد بن مسلما دو آدمیوں کے ساتھ اکھٹے اندر گئے اور اُن سے کہا، جب کعب آئیگا تو میں اُسکے بالوں کو چھوؤں گا اور اُسے سونگھوں گا اور تب تم دیکھو گے کہ میں اُسکے سر کو پکڑ لیا۔اُسے مارتا ہوں۔ میں تمہیں اُسکا سر سونگھے دوں۔کعب الاشرف اُن کے پاس نیچے آیا، اپنے کپڑوں میں لپٹا اور خوشبو بکھیرتے ہوئے۔محمد بن مسلما نے کہا،میں نے اس سے بہتر کبھی کوئی خوشبو نہیں سونگھی۔کعب نے جواب دیا، میں نے بہترین عرب خورتین حاصل کیں جو جانتی تھیں کہ کس طرح اعلیٰ درجے کا پرفیوم استعمال کرنا ہے۔محمد بن مسلمان نے کعب سے درخواست کی کیا تم اجازت دو گے کہ میں تمہارا سر سونگھوں؟ کعب نے کہا، ہاں ۔ محمد نے اُسے سونگھا اور اس طرح اُس کے ساتھ نے بھی۔پھر اس نے دوبارہ کعب سے درخواست کی کیا تُم مُجھے اجازت دو گی؟ کعب نے کہا، ہاں جب محمد نے اُسے مضبوطی سے پکڑا  تو اس اُس نے کہا (اپنے ساتھی سے)، اُسے پکڑ لو ! پس اُنہوں نے اُسے قتل کیا اور نبی کے پاس چلے گئے اور اُسے اطلاع دی۔ بخاری والیم ۵ کتاب ۵۹ نمبر ۳۶۹ صفحہ ۲۴۸۔ ۲۵۰۔

اگر آپ اُس اقتباس کا شروع دوبارہ پڑھیں؛ تو ایسا لگتا ہے کہ محمد نے اُسے مارنے کے لیئے اُسے کُھلی اجازت دی تھی اور دھوکے سے ایسا کرنے کے لیئے۔یہ چیز جنگ میں مخالف ہوتی ہے لیکن یہ ایک دوسری بات ہے کہ ایک دوست کو قتل کرنا جو آپ پر اعتماد رکھتا ہے۔

سوال: کسی دوست کو دھوکے سے قتل کرنا کیوں جائز ہے، جو آپ پر اتنا اعتماد رکھتا ہے کہ آدھی رات کو آپکے لیئے اُٹھ جاتا ہے؟

عورتوں کے لحاظ سے احترام

جب تارکین محمد کی اطاعت کا حلف اُٹھاتے، بخاری والیم ۶ کتاب ۶۰ نمبر ۴۱۴ صفحہ ۳۸۵۔ ۳۸۶ بیان کرتی ہے کہ محمد کو تارکین عورتوں کو بالکل ہاتھ نہیں لگانا چاہیے۔جبکہ کُچھ غیر مسلم ہو سکتا ہے اُسے بُہت شدید خیال کرتے ہوں،تمام کو مُتفق ہونا چاہیے کہ کوئی موقع نہیں کہ وہ یہاں بے عزت ہوا تھا۔

لیکن کیا آپ مندرجہ ذیل کی وضاحت کرسکتے ہیں؟کہ اتھوپیا سے ایک جوان لڑکی کو محمد نے بڑا خوش کیا ہے؟اُم خالد بنت خالد نے بیان کیا: جب میں اتھوپیاسے آئی (مدینہ آئی) تو میں ایک جوان لڑکی تھی۔رسول اللہ نے ایک نشانات والی چادر مُجھے پہنائی۔رسول اللہ یہ کہتے ہوئے اُن دھبوں کو اپنے ہاتھوں میں رگڑ رہا تھا ثناہ! ثناہ! (یعنی خوب ، خوب) بخاری والیم ۵ کتاب ۵۸ نمبر ۲۱۴ صفحہ ۱۳۹ یہ پوری حدیث ہے ۲۱۴۔اس کے بعد یا پہلے کُچھ بھی نہیں ہےجو بطور وضاحت دیا گیا ہو۔سورۃ ۴۰: ۵۵ اور ۴۸: ۱۔ ۲ میں اللہ مُحمد سے کہتا ہے اپنے گناہوں کی معافی مانگ کُچھ تراجم اسے نقص کہتے ہیں۔لیکن لوگوں کو جسمانی نقائص کی معافی کی کوئی ضرورت نہیں، بلکہ اخلاقی کی ۔ صحیح مسلم والیم ۱ کتاب نمبر ۱۶۹۵ کہتی ہے محمد نے دعا کی میں نے بذاتِ خود غلطی کی اور اپنے گناہ کا قرار کیا ۔میرے سارے گناہ معاف کر۔۔۔۔ بخاری والیم ۸: ۴۰۷ سابقہ اور شمائل تر مذ سبق ۲ نمبر ۹ (۲۲) صفحہ ۳۱بھی محمد کے گناہوں کا ذکر کرتے ہیں۔ہم نہیں جانتے کہ محمد نے معافی کی دعا کی کہ اُس نے اُس ایتھوپی لڑکی کو ہاتھ لگایا تھا یا نہیں۔

سوال: یہ کب قابل احترام ہوتا ہے کہ آپ اپنے ہاتھ کسی جوان لڑکی پر رکھیں؟

خُدا کے متعلقہ احترام

بائبل بُہت سے لوگوں کی مثالیں دیتی ہے جو خُدا کا احترام کرتے تھے ؛ خُدا کا انکار یا دوسروں کی پرستش کرنے کی نسبت مرنے کو ترجیح دیتے تھے۔بُت پرستی، یا اُسکی پوجا نا کرنا جو خُدا نہیں، ایک بڑا گناہ ہے،خُدا کے لیئے بے عزتی کا باعث ہے۔

بائبل میں ایک اچھی مثال دانی ایل باب ۳ کی ہے بنوکد نظر بادشاہ ایک عقیدہ بنایا کہ جب لوگ قرنا، نے، ستارے، رُباب، بربط، جفانہ اور ہر طرح کے ساز کی آواز سُنے تو گر کر سونے کی مُورت کو سجدہ کرے۔

بنوکد نظر نے سچے خُدا کی پوجا کرنے سے منع نہیں کیا تھا،بلکہ صرف یہ کہ وہ اس سونے کی مورت کی بھی پوجا کریں۔ تین خُدا ترس یہودی آدمی سدرک، میسک اور ابد نجو جب دوسرے لوگ سجدہ کر رہے تھے اُنہوں نے نہ کیا۔بنوکد نظر خیال کرتا تھا کہ وہ ایک اچھا آدمی ، اُنکو ایک اور موقع دیا، پھر بھی اُنہیں خبر دار کیا،اگر تم نے اسے سجدہ نہ کیا تو تمہیں فوری طور  جلتی ہوئی بھٹی میں پھینکا جائیگا۔ پھر کیا تمہارا دیوتا تُمہیں میرے ہاتھ سے بچانے کے قابل ہوگا (دانی ایل ۳: ۱۵) تاہم، اُنہوں نے جواب دیا،اگر ہمیں جلتی بھٹی میں پھینکا جاتا ہے،تو خُدا جس کی ہم خدمت کرتے ہیں اس سے ہمیں بچانے کی قدرت رکھتا ہے اور اے بادشاہ وہ ہمیں تیرے ہاتھ سے چُھوڑائے گا۔لیکن حتیٰ کہ وہ ہمیں نہیں بچاتا تو اے بادشاہ ہم تمہیں بتانا چاہتے ہیں کہ ہم تیرے دیوتاؤں کی خدمت نہیں کریں گےیا جو سونے کی مورت تو نے بنائی ہے اُس کی پوجا نہیں کریں گے۔(دانی ایل ۳: ۱۶۔ ۱۹) نبوکد نظر قہر سے بھر گیا اور اُنہیں آگ میں پھینک دیا  لیکن خُدا کی تمجید خُدا نے اُنہیں معجزانہ طور پر بچا لیا۔مزید برآں،جب وہ بھٹی میں تھے، تو نبوکد نظر نے تین آدمیوں کو نہ دیکھا بلکہ چار آپ باقی کہانی دانی ایل کی کتاب سے پڑھ سکتے ہیں،لیکن نقطہ یہ ہے کہ یہ نہ آدمی نہ صرف سچے خُدا کی پرستش کرتے تھے بلکہ وہ کسی دوسرے خُدا کی پرستش نہ کر کے خُدا کی عزت کرتے تھے اور اپنی زندگیوں کو ترک کرنے کے لیئے راضی ہوتے ہوئے کہ دوسرے خُدا کی تمجید نہیں کرنا۔

اس کے بر عکس، یہاں ایک وسیع تر  چیزیں ہیں جو محمد نے نے کیں۔اسکو دو ابتدائی مسلم مصنفین نے لکھا:

کعب القرازی سلام کے ابتدائی عظیم ترین علما میں سے ایک ۔

اُروا ابنِ الزبیر محمد کی حیات کے مطالقہ کا بانی۔وہ عائشہ کا بھتیجا بھی تھا اور ابو بکر کی بیٹی عاصمہ کا بیٹا۔

ابو بکر ابن عبدالرحمٰن ابن الحارث اسلامی شریعت میں پہلی صدی کے چوٹی کے علما میں سے ایک۔

عبدالعلائیہ البصری کے عظیم قرآنی علما میں سے ایک۔اس نے خلیفہ عمر اُبیہ ابن کعب، ید ابن ثابت اور ابن عباس کے ساتھ قرآن کا مطالعہ کیا۔

محمد ابن الصیب اکلبی ایک ابتدائی تبصرہ نگار جس نے طوریل ترین تفسیر مرتب کی جو اس کے زمانے تک لکھی جا چُکی تھی۔

قدا دہ ابن دیامہ، اسلام کے ابتدائی عظیم ترین مبصروں میں سے ایک ۔

ابن عباس قرآنی مطالعات کا بذاتِ خود بانی۔

السدی ایک اورابتدائی عالم جس نے ابن عباس کے ساتھ مطالعہ کیا۔

اکِرمہ ابنِ عباس کا ایک غلام اور محمد کی زندگی کا ایک ماہر۔

سعد ابن جبار، ابن عباس ے چوٹی کے شاگردوں میں سے ایک اور اپنے زمانے کے قرآنی علما کا ایک قیادتی بندہ۔

الوا حدی/ واکدی (۲۰۷/ ۸۲۵ م میں مرگیا)

ابنِ سعد (۲۳۰/ ۸۴۵ م میں مرگیا)

ابنِ اسحٰق (۱۴۵/ ۷۶۹ یا ۱۵۱ ہجری/ ۷۳۳ میں مر گیا)۔

ابن جریر البطری (۹۲۳ میں مر گیا)۔

ابو معاشر چورا سان سے (۷۸۷۔ ۸۵ م)

ابنِ ابی حاتم (۲۴۰ ہجری میں پیدا ہوا)

ابنِ المندھر (۲۴۲ ہجری میں پیدا ہوا)

ابن حجر اسقلان سے ( ۷۷۳۔ ۸۵۲م )

ابن مردویہ (۳۲۳۔ ۴۱۰ ہجری)

موسیٰ ابن اُقبا (۱۴۱ ہجری میں مرا) امام مالک نے تعریف کی۔

اماکھشاری اپنی تفسیر میں، یا سورۃ ۲۲: ۵۲۔ (۱۰۷۰۔ ۱۱۴۳ م)۔

سارا ریکارڈ جو سورۃ ۵۳ میں حقیقتاًکہا گیا ہے کہ الات کی شفاعت منات ار عزہ کی پُر اُمیدتھی۔ یہاں یہ ہے جو ابطری نے کہا۔ ابن جریر ابطری ( ۹۳۳ م میں مرا ) شفاعتی سُنی تھا جس نے۹۱۵ م تک اسامی دُنیا کی تاریخ کی ۳۸ جلدیں تحریر کریں۔ اُسے مبوں کا شیخ کہا جاتا رہا ہے۔ وہ جلد ۶ صفحہ ۱۰۸۔ ۱۱۰ میں لکھتا ہے جب رسول اللہ نے دیکھا کہ اس کا قبیلہ اس کے مخالف ہو گیااور یہ دیکھ کر غمزدہ ہو ا کہ وہ پیغام و اس نے اُن کے لیئے خُدا سے لیا تھا چھوڑ رہے ہیں تو وہ اپنی جان میں بے قرار ہوا کے کوئی چیز خُدا کی طرف سے آئیگی جو اُسکی صلح اُسکے قبیلے سے کرائیگی۔۔۔۔اور ب وہ کلام کی طرف آیا: کیا تم نے الات اور لعٰرہ اور منات کے بارے سوچا ہے تیسرا اور ایک اور؟  شیطان  نے اپنی زُبان اس میں ڈلدی، کیونکہ اُس کی اندرونی تکراریں اور جسکی خواہ اپنے لوگوں تک لانے کی تھی مکدم: یہ اُونچے اُڑتے ہوئےسارس؛ دا اصل اُنکی شفاعت قبول کی گئی [تبدیلی کے طور پر: خواہش کے لیئے یا اُمید کے لیئے] جب قریش نے یہ سُناتو خوش ہوئے اور شادمان ہوئے اور اس راہ پر خوش تھے جس میں اُنکے دیوتاؤں کا ذکر کیا تھا،اور اُنہوں نے اُسکی سُنی، جبکہ مسلمان وح کے لحاظ سے اپنی نبی پر مکمل اعتماد رکھتے تھے جو خُدا کی طرف سے آیا تھا اس کی غلطی کے بارے مشکوک نہ تھے، غلطی یا خطا کے بارے ۔۔۔۔ پھر (بعد میں) جبرائیل رسول اللہ کے پاس آیا اور کہا، محمد ، تم نے کہا کِیا ؟ تم نے لوگوں کے سامنے جو تلاوت کیا میں وہ خُدا کی طرف سے نہیں لایا تھا۔۔۔۔

سوال: کیا کوئی سچا پیغمبر لگاتار بت پرستی کا اعلان کرتا ہے؟

 

ایک قابلِ احترام شخص بے عزتی میں مُبتلا ہو سکتا ہے جب وہ گمراہ ہوتا ہے۔ جھوٹا الزام لگا یا جاتا ہے یا بے انصافی کا شکار ہوتا ہے۔ یسوع کو یہوداہ نے نہ صرف پکڑوایا بلکہ وہ پہلے سے یہ جانتا تھا، اگر وہ لگاتار اپنے راستے پر رہا تو اُسے پکڑوایا گیا، اذیت دی گئی اور صلیب پر لٹکا کر مار دیا یسوع با عزت طریقے سے واپس جاسکتا تھا اور بھاگ سکتا تھا۔ پھر بھی یسوع نے بہادری سے اپنے مُشکل راستے کو جاری رکھنا منتخب کیا، تا کہ ہمارے گناہوں کی خاطر صلیب پر مرجائے۔

ہم اُسے جانتے ہیں کیونکہ یسوع نے اُس کی نبوت کی تھی ، اُسکے ابتدائی پیروکاروں نے اُسے لکھ لیا، بُہت سے مسیح اُسکی خاطر مر گئے،لیکن سب سے مقدم، کیونکہ یسوع مُردوں میں سے جی اُٹھا۔ خُدا پر ایمان ایک فیصلے کا تقاضا کرتا ہے، کیا تم یسوع کے کہے اور کیے پر بھروسہ کرنے والے ہو،یا کسی دوسرے کے لیئے اُسے رد کرنے والے ہو؟

 یسوع کی قربانی کے لیئے اچھی نہیں جو یسوع کی پیروی کرنے سے انکار رکرتےہیں۔ مُجھے اُمید ہے کہ آپ یسوع کو اپنا خُداوند اور نات دہندہ ماننے کے لیےدعا کروگے۔میں آپ سے اسطرح دعا کرنے کی درخواست کرتا ہوں عظیم اور محبت کرنے والے دا، ہر چیز کے خالق ہمیں مزید سکھا کی تو کون ہ ہم کیا ہیں، تو کیا اہتا ہے کہ ہم کریں اور تو کیا چاہتا ہےکہ ہم جو بینیں۔تو خالق اور مقدس/ پاک خُدا ہے۔ لیکن ہم اقرار کرتے ہیں کہ ہم نے گناہ کیا ہے اور بُرائی ہی کی ہے اور اس سے ہم محروم رہے جو آسمان میں داخل ہونے کے لیئے ضروری ہے، لیکن تو اُن کے لیئے رحیم ہے جو ُبرے ہیں اور جب ہمارے کے لیئے کوئی راستہ نہ رہا سوائے تیرے اکلوتے بیٹے یسوع مسیح کے کیونکہ تو خُدا، ہم جو خود غرضی کی زندگی بسر کرتے ہیں اور ہم اپنی زندگیاں تیری طرف موڑتے ہیں۔مہربانی سے ہماری زندگیوں میں آ، تا کہ ہم یسوع مسیح کے وسیلے خُدا کے فرزند بن سکیں۔

پیارے مسلمانو! اگر آپ جواب لینا چاہتے ہیں تو مہربانی سے

www.Muslimhope.com

پر جائیں اور ہمیں ای میل کریں۔

بائبل کے حوالے این آئی وی ترجمے سے لیئے گئے ہیں۔