اللہ کی بیٹیاں

مسلمان اکثر بڑی تیزی سے دوسروں کو بتاتے ہیں کہ اللہ نے اجازت دی ہے کہ بائبل میں بگاڑ پیدا ہو۔ وہ کونسا اشارہ دے رہے ہیں یہ کہ قرآن خدا کا معتبر کلام ہے جبکہ بائبل نہیں۔ بائبل میں بہت چھوٹے متن کے اختلاف ہیں، مگر کسی تبدیل شدہ عقیدے کا ثبوت سنجیدہ نہیں قرآن میں اوبیا کی روشنی  میں بہت سارے بگاڑ کے ثبوت ہیں، متروک آیات،  اوتھمن  اور دوسرے قرآنی مسلے۔ تاہم، بہت سارے مضبوط قرآنی عقیدی اختلاف مسلمانوں نے خود ہی پیدا کیے ہیں وہ ہیں " اللہ کی بیٹیاں"

مکمل خلاصہ

مسیحی ویب سائٹ

 http://answering islam.org/responses/saifullah.sverses

کہتی ہے، "محمد کی حیاتی کے بہت سارے پریشان کن واقعات میں سے ایک اسوقت واقع ہوا جب شیطان نے اپنا کلام محمد کے منہ میں ڈالا۔ محمد نے شیطان کا کلام خدا کا کلام سمجھ کے سُنایا۔ اس واقع کی تحریری شہادت شروع کے مسلمان عالموں نے دی اور قرآن اور حدیث میں سے حوالہ دیا۔ بعد میں مسلمان شرمندہ ہوئے کہ انہوں نے خود اعلان کیا کہ نبی نے شیطان کا کلام سنایا، انہوں نے اس سے انکار کر دیا۔ ان موخرالذکر محمدیوں نے لاکھوں معافیاں اور انکار کیے محمد کی گناہ آلودہ غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے۔

ایک بار پھر اشارہ کرنا ضرور ہے کہ " شیطانی آیات" کا واقعہ کسی غیر مسلم نے نہیں بنایا۔ یہ واقعہ شروع کے اسلامی ذرائع نے ریکارڈ کیا جو محمد کی حیاتی پر دستیاب ہے۔ کسی کو یہ بھی نہیں سوچنا چاہیے کہ یہ کہانی ان لوگوں نے بنائی جو اسلام پر تنقید کرتے ہیں۔ یہ ایک درمیانی قصہ ہے جو براہ راست شروع کے اسلامی ریکارڈ میں پایا جاتا ہے ۔  یہ عنوان اسلام میں بڑا بحث و مباحثہ کا ایک موضع ہے۔ شیطان نے اپنا کلام محمد کو بطور خدا کا کلام تلاوت کرنے کے لیے بروئے کار لایا۔

قرآن نے اصلاً کیا کہا؟

سورۃ نجم (سورۃ 53) 19-20 آیات کہتی ہیں کیا تم نے لات اور عزیٰ اور ایک تیسری دیوی منات کو دیکھا ہے؟ اللہ بطور دیات اسلامی عرب سے پہلے موجود تھا اور اسکی تین بیٹیاں تھیں الات، العزیٰ اور منات۔ ( غور کی ال کا مطلب ہے "دی" یعنی خاص)

محمد کے شروع کے چار سوانح نگاروں نے لکھا کہ وہ آیات اصلاً اسطرح ہیں۔ " یہ ہیں سر بلند لق لق ( صالح) جسکی شفاعت پر اُمید ہوتی ہے" ۔

تفسیر: اللہ کی بیٹیوں کو آسمانی شفاعتی مخلوق سمجھا جاتا تھا۔ سر بلند نمدیاں سارس ان کے لیے استعارہ ( نشان ) تھا۔ اور متبادل پڑھائی یہ کہ " کسی کے لیے پر امید ہونا" ( تیسرا) منظوری سے تسلیم کیا گیا ہے ترتدا ( محمد کی زندگی صفحہ 166 ابن اسحاق کا، الفریڈ گولیوم کے ترجمے میں سے)۔

بعد میں:  یہ عبارتنکال دی گئی اور اس کی جگہ پر مندرجہ زیل رکھ دی گئی۔ " تم مردانی جنس کے لیے اور اسکے لیے جنس کے لیے کیا ہے؟ دیکھو، یہ حقیقتاً ایک بہت نا مناسب تقسیم ہو گی" ۔ (53: 21-22 آیات)

تفسیر:  وہ جو اللہ کی تین بیٹیوں پر ایمان رکھتے ہیں اللہ کے لیے غیر مناسب ہیں، کیونکہ ان سبھوں نے لڑکوں کو ترجیح دی اور پھر کہا کہ اللہ کی صرف بیٹیاں ہیں۔ یہ جو نامزد کی گئیں، " شیطانی آیات" نئے دور میں سلمان رشدی نے اپنے غیر متعلقہ ارو افسانوی " ناول"میں اس کو بطور عنوان استعمال کیا ہے۔ اور یہ کاغذ اس نئی کہانی پر بحث نہیں کرتا۔ یہاں تک کہ اصلی شیطانی آیات کا تعلق ہے کوئی پکا مسلمان اور غیر مسلم کیسے بتا سکتا ہے کہ کونسی آیت اصل میں موجود تھی؟ باقی یہ کاغذ بالواسطہ اور بلاواسطہ ثبوت دیتا ہے کہ شیطانی آیات اصل میں وہاں تھیں، اور نیا مسلمان اعتراض دیتا ہے۔

چار سوانح نگار:

شیطانی آیات کا براہ راست ثبوت

جب کے شروع کے مسلمانوں کی محمد کے بارے میں کہی گئی ہر بات سچ نہیں،

اسلامی علما بہت ممکن ہے کہ محمد کی کہی گئی باتیں مانتے ہوں جو تین یا بہت سارے ذرائع  سے ثابت ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ شیطانی آیات غیہر مسلم ذرائع سے نہیں۔ بلکہ ان چار شروع کے مسلم علماء سے ہیں جو محمد کے سوانح نگار ہیں۔ غور کرو کہ تین سوانح نگاروں نے محمد کی زندگی دی تحریری شہادت دی یہاں تک کہ شروع کے مشہور حدیث کے مجموعے کی بہ نسبت جس پر سُنی اسلام قائم ہے۔

الوحیدی:

(207 ہجری/ 823ء میں مر گیا) نےا سبب الزول لکھی۔ "ایک خاص دن مکہ کے ایک سردار نے کعبہ کے قریب اک گروپ اکٹھا شہر کے رسم و راوج کے امور پر بحث ہوئی۔ جب محمد ظاہر ہوا اور ان کے پاس دوستانہ طرہقے سے بیٹھتےہوئے سورۃ 53 تلاقت کرنا شروع کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" اور تم نے لات اور عزیٰ اور منات تیسری دیوی نہیں دیکھی؟ "جب وہ اس آیت پر پہنچا تو شیطان نے خیالوں کا ایک بیان تجویز کیا جس نے کئی دن تک اس کی روح کو قبضے میں رکھا، اور اسکے منہ میں صلح اور راضی نامے کا کلام رکھا، مکاشفہ کو خدا کی طرف سے اسکو ملا، ناموں کے ذریعے۔

یہ سر بلند عورتیں ہیں اور  واقع ان کی شفاعت پر امید ہے۔ قریش حیران اور خوش تھا ان کی الوہیت کے اس اقرار کے لیے۔ اور جب محمد نے یہ سورۃ قریبی لفظوں سے دیکھی، جس سبب سے وہ خدا کے سامنے جھکنا ہوتا ہے اور اسکی خدمت کرنا، سارے مجمع نے باہمی رضا مندی کے ساتھ زمین پر سجدہ کیا اور پوجا کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شام کو جبرائیل انہیں ملا اور نبی نے اسے سارۃ تلاوت کر کے سنائی، اور جبرائیل نے کہا یہ کیا ہے جو آپ نے کیا؟  آپ نے لوگوں کے سامنے جو الفاظ دہرائے میں نے کبھی بھی آپ کو نہیں دیے، اس لیے محمد دکھ کے ساتھ غمگین ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

ابن سعد:

(230ہجری/ 845ء میں مر گیا) وہ الوحیدی کے کام سے آگاہ تھا  وہ خود بھی سوانح نگار تھا جس نے کتاب التباقت الکبیر کی 15 جلدیں لکھیں۔

ابن اسحاق:

(145/767 یا 151 / 773ء وچ مریا) وہ ایک شفی سنی تھا جس نے بعد میں اپنا عارضی سکول شروع کیا اس نے سیرات رسول اللہ ( اللہ کے رسول کی زندگی ) لکھی۔ "مہاجرین وہاں ( ایتھوپیا) میں رہے جب تک کہ انہوں نے سن نہ لیا کہ محمد کے لوگوں نے اسلام قبول کر لیا اور اپنے آپ کو جھکا دیا ہے۔ یہ ہی وجہ تھی کہ سورۃ نجم محمد پر نازل ہوئی اور نبی نے یہ تلاوت کی۔ مسلمان اور مشرک دونوں نے چپ کر کے اسے سنا یہاں تک کہ وہ ان لفظوں پر پہنچ گیا، کیا تم نے لات اور عزیٰ کو دیکھا؟ ان سبھوں نے پوری توجہ کے ساتھ کان لگایا جب کہ مومنوں نے یقین کیا ( محمد کا) کعبہ نے مذہب چھوڑ دیا جب اوہنوں نے شیطان کا پیغام سنا اور کہا اللہ کی قسم ہم ان کی خدمت کریں گے ( لق لق)۔ اس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم کو اللہ کے نزدیک لائے، شیطان نے ہر مشرک کو یہ دو آیات سنائیں اور ان کی زبان آسان بنا دی۔ اس نے رسول پر بڑا زور دیا جب تک کہ جبرائیل نے آ کے شکایت نہ کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" (وہ یزید بن زیاد کی ترسیل کے سلسلے کا ذکر کرتا ہے محمد بن اسحاق، سلمیٰ بن حامد بن اسحاق بن جریر الطباری (923ء میں مر گیا) وہ ایک شفی سنی تھا اس نے 915ء تک اسلامی تاریخ کی 15 جلدیں لکھیں۔ اس کو " شیخ التفسیر" لا لقب ملا۔ وہ جلد 6 ک صفحہ 108 اور 110 پر لکھتا ہے " جب اللہ کے رسول نے دیکھا کہ اسکا قبیلہ کیسے اسکے کے پیچھے سے واپس چلا گیا  اور انہیں اللہ کے پیغام کو جو اس نے دیا دیکھ کر غمگین ہوا۔ اس نے اپنی روح میں خواہش کی کہ رب کی طرف سے اسے کچھ ملا جس نے اس کے ساتھ اس کے قبیلے کی صلح کروا دی۔ اور جب وہ ان الفاظ پر آیا کہ کیا تم لات ، المنات اور عزیٰ کے بارے سوچا جو تیسری دیوی ہے؟ شیطان نے اسکو اپنی زُبان دی۔ اسکی اپنے اندر کی بھث اور اپنے لوگوں کو لانے کی خواہش کے الفاظ ۔ یہ اونچی اڑتی سارس ہے۔ اور واقع ان کی شفاعت منظوری کے ساتھ مان لی گئی۔ [ باری باری خواہش کرنے یا پ امید ہون دے لئی] جب قریش نے یہ سنا وہ خوش ہوئے اور شادمان ہپوئے اس طریقے سے جس وہ ان کے دیوتاوں کے بارے میں بولا، اور انہوں نے سنا¸جب کہ مسلمان پورے بھروسے کے ساتھ، اپنے پغمبر کی عزت میں اور پیغام کی عزت میں بھروسہ کرتے تھے، جو وہ دیوتا سے لایا تھا، غلطی کا شک بھی نہیں تھا، پھر جبرائیل اللہ کے رسول کے پاس آیا اور کہا محم دتو نے کیا کیا؟ آپ نے لوگوں کو تلاوت سنائی جو میں نے آپ کو اللہ کی طرف سے لا کر نہیں دی" ۔ بعد میں مسلمان علماء جنہوں نے اسے اسطرح بیان کیا۔

1)ابو شرما کوراسن سے (787-885 ہجری)

2) ابن ابی حاتم

3) ابن المنُدھیر

4)ابن حجر اسکلام سے (773-852 ہجری)

5) ابن مردویاہ

6) موسیٰ ابن اُقبا

7)زمکھا شری کی مشہور تفسیر سورۃ 22: 52 (1070-1143ء)

پہلے چھ بڑے طبقات کی کتابیں، مترجم الس مونل الحق دے مطابق نیں۔

شیطانی آیات کا بلاواسطہ ثبوت

قرآن اور بخاری احادیث

بخاری تقریباً 870ء میں مر گیا۔ (یہاں تک کہ چار ذرائع میں سے تین کی فہرست دی گئی ہے) جب محمد نے سورۃ نجم کی تلاوت کی، غیر قوموں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں نے بھی سجدہ کیا (بخاری جلد 3 کتاب 19 عدد 173 سفحہ 100،جلد 3 کتاب 19 عدد 176 صفحہ 101،جلد 6 کتاب 60 عدد 385-386 صفحہ 364-365، ابوداود جلد 1 کتاب 2 سبق 481 عدد 1401 صفحہ 369)۔ محمد کی دوسری سورتوں پر غیر قومیں نہیں جھکیں، وہ اس سورۃ پر کیوں اتنے متفق ہوئے، خاص طور پر بخاری اور ابوداود نے ان غیر قوموں کا نہیں کہا کہ وہ مسلمان ہوئے یہ ان جنگوں سے اچھا ہے جو مکہ کے لوگوں سے لڑی گئیں۔

سورۃ 22: 52 کہتی ہے " ہم نے آپ سے پہلے کوئی نبی یا رسول نہیں بھیجا، لیکن اس نے خواہش کی اور شیطان نے اس کے خواہش میں کچھ ( غرور) ڈال دیا۔ لیکن خدا نے کوئی بھی بے کار چیز مٹا دی جو شیطان نے اس میں ڈالی اور خدا اسکی نشانیوں کی تصدیق کرے گا اور قائم کرے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"  ۔

سورۃ 17: 73-75 کہتی ہے " کہ ان کا مقصد آپ کو آزمانا اور میرے مکاشفے سے گمراہ کرنا میرے نام کا کوئی متبادل بنانا، بالکل مخلف ہے۔ ( اس صورت میں) دیکھو! وہ یقیناً آپ کو اپنا دوست بنا لیں گے۔ اور کیا ہم نے آپ کو طاقت نہیں دی آپ اسکے سامنے تھوڑا سا جھکیں گے۔ اس صورت میں ہم تمہیں زندگی میں ( سزا کا) دوہرے مزہ کا حصہ دیں گے، اور موت میں برابر کا حصہ دیں گے۔ اور مزید ہمارے خلاف آپ کی کوئی مدد نہیں کرے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" ۔

توجہ کرو کہ حتیٰ کہ کجھ سورۃ 17: 73-75 بھی دعویٰ کرتی ہے۔ جو ( نبی نو معراج ) کے وقت ملیں ۔ طبری اور ابن سعد نے لکھا کہ سورۃ 17: 73-75 دا شیطانی آیات کے وقت مکاشفہ ملا۔ مسلمان شیطان کی سرگوشی کرنے کی ایک عام اصظلاح رکھتے ہیں، اس کو عام " وسواس" پڑھا جاتا ہے۔

نو مسلم اعتراضات اور جوابات

مسلم اعتراض 1: لوگ ان 11 کے علاوہ شیطانی آیات کا ذکر نہیں کرتے۔ کچھ عام مسلمان علماء جنھوں نے شیطانی آیات کے بارے میں نہیں لکھا وہ انہیں امام مسلم، جس نے صحیح مسلم لکھی ، ابو داود، نساء احمد بن سنبل اتے ابن ہشام۔

جواب: احادیث کے ایک مجموعے میں بہت ساری چیزیں ہیں جو دوسرے مجموعوں مں نہیں۔ مثلاً مفصل بخاری احادیث زکواۃ کیوں ادا کی جائے اس کے بارے میں مواد نہیں ہے ذخیرہ اندوزی کے بارے میں مواد نہیں ہے جیسے کہ صحیح مسلم جلد 2 سبق 371 عدد 2205 صفحہ 484 میں پایا جاتا ہے کہ ہر روز سویرے دو فرشتے مسلمان کو ملتے ہیں اور دوسری مثال، ہم جانتے ہیں کہ ابن ہشام نے بخاری کو استعمال کیا، لیکن اس نے شیطانی آیات والا حصہ چھوڑ دیا۔ ابن ہشام کی نقل کی ابن اسحاق ، نے کہا، اس نے وہ چیزیں جو غیر موزوں تھیں کو ٹھیک کیا۔جبکہ وہ ان کو اندر رکھنے کے لیے اتنا پریشان اور وہ ثبوت نہیں کہ یہ واقع ہوئی ۔

مسلم اعتراض 2: مبینہ شیطانی آیات باقی سورۃ 53 کے ساتھ مناسب نہیں۔

جواب: یاد رکھو نئے حصے نے شیطانی آیات کی پیروی نہیں کی، بالکہ ان کو قدرے ہٹا دیا۔ اسطرح کے حالات بھی ہیںجس میں ایک سورۃ کے مخلتف حصے مکتلف اوقات میں دئیے گئے ۔ دوسرے الفاظ میں، ہم نہیں جانتے کہ سورۃ نجم (53) 22آیت کے بعد ایک ہی وقت میں لکھی گئی ۔53-51 آیتاں محمد کے ذاتی خطاب سے باہر ظاہر ہوتی ہیں۔

مسلم اعتراض 3: سورۃ 53: 19-21  ہو سکتا ہے کہ شیطانی سرگوشی کرنے سے بہت پہلے لکھی گئی ہو۔

جواب: طبری اور ابن سعد کہتے ہیں کہ ان کو ایک وقت میں سورۃ 17: 73-75 جیسا مکاشفہ ملا۔ آج کوئی یقیناً نہیں جانتا کہ زیادہ سورتیں کب لکھی گئیں۔ دوسرے الفاظ میں ، جیکر ایہہ بوہت پہلے لکھی گئیں۔ اس کے کہے ہوئ کا انکار نہیں۔ جیکر ایک وفادار مسلمان حقیقتاً قرآن پر  بشمول سورتیں 17: 73-75 اور 22: 52  یقین کرتا ہے، اور پھر اسے شیطانی زیادہ شیواں دا وی یقین کرنا چاہیے "محمد اور مذہب اسلام" صفحہ 120 پر گل کرسٹ کہتا ہے" کہ دوسری دلیل کمزور ہے کیونکہ ثبوت کمزور ہیں کہ سورۃ 53 کا پہلا حصہ معراج کے حوالے کی طرف اشارہ ہے، جو ابائے سینا کی طرف ہجرت کا ہے جیسے پہلے ظاہر کیا گیا، یہ تقریباً محمد کی شروع کی وحیوں کی طرف اور یقیناً اشاری کرتا ہے جس کی قرآن نے خود حد بندی کی ان دو کی بھی جب اس نے ( محمد ) نے تبلیغ شروع کی بد قسمتی سے کوئی کہتا ہے ، کہ روحانی طور پر سارے مسلمان دلائل جو اس کہانی کے خلاف حقیقی فطرت ہیں وہ برابر کمزور ہیں۔

مسلم اعتراض4: شیطانی آیات ایک خدا کی مرکزی تعلیمات کے خلاف ہیں جو محمد نے یکسان طور پر سکھائی۔

جواب: محمد ہر چیزپر برابر نہیں آزمایا گیا۔ یاد رکھو بخاری جلد 2 کتاب 54 سبق 10 عدد 490 صفحہ 317، جلد 4 کتاب 53 سبق 38 عدد 400 سے آگے صفحہ 266، جلد 8 کتاب 53 سبق 38 عدد 400 صفحہ 267۔ یہ ریکارڈ کہ محمد کچھ عرصے کے لیے بُری روح کے ساتھ حقیقتاً جادو کے اثر میں رہا۔ مزید براں، سوانح نگار اور دوسرےجنہوں نے یہ ریکارڈ لکھا۔ مسلمان ہی رہے، اس لیے یہ مورخ ثابت کرتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ محمد کی پیروی کرنی ہے جیکر وہ جھوٹ بھی بولے۔

مسلم اعتراض 5: قرآن میں بہت سی عبارات کہتیں ہیں کہ محمد کوئی جھوٹی بات نہیں کہہ سکتا اور یہ تفسیر کے ساتھ موازنہ نہیں کرتی کہ شیطان نے کچھ باتیں کیں مثلاً

سورۃ 10: 15ب:  کہہ کہ یہ میرے لیے ہے ، میری باہمی رضا مندی ہے اسکو بدلنے کے لیے: میں نے کچھ پیروی نہیں کی بلکہ جو مجھ پر ظاہر ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

سورۃ 41:42: کوئی جھوٹاس تک رسائی نہیں کر سکتا، اس سے پہلے یا اس کے بعد: یہ کسی پر حکمت لائق یا ساری تمجید کے لائق نے نازل کی ہے۔

سورۃ 15: 9 " ہمیں کوئی شک نہیں پیغام نازل کردو، اور ہم یقیناً اس کی ( خرابی سے ) حفاظت کریں گے"۔

سورۃ60: 44- 46: "اگر وہ ( رسول) میرے نام سے کوئی بات ایجاد کرے اور ہم یقیناً ٹھیک ہاتھ سے اسے روک دیں گے اور پھر ہم یقیناً اس کے دل کی شریان کاٹ دیں گے"۔

جواب: ایک طرح، یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ شیطان نے ، نہ کہ محمد نے شیطانی آیات ایجاد کیں اور قرآن کی حفاظت ایک غلط تعلیم کو اندر آنے نہیں دیتی اور اللہ انہیں ٹھیک رکھتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اگر کوئی مسلمان ان آیات کو اسطرح تفسیر کرتا ہے کہ نبی کے پیغام میں غلط بات نہیں آتی، اور پھر شیطانی آیات کے قطع نظر، قرآن میں موجود شیطانی سرگوشیوں کا اختلاف ہو گا۔ یہ بھی قرآن کی آیت کا صرف ایم نمونہ نہیں کہ "مکمل طور پر غائب کرنا " اگر یہ متروک ہیں ۔ صحیح مسلم والیم جلد 1 سبق 244 عدد 1433 صفحہ 329-330۔  یہ ایک ایم حدیث ہے کیونکہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ آیت نہ صرف متروک ہے بلکہ اسکے متروک ہونے کے بعد یہ مکمل طور پر غائب ہو گئی۔ اس طرح نہ ہی :

a) قرآن کا ( آسمان پر) تختی پر پہلا ترجمہ رہا ہے اور بعد کا ترجمہ تختی سے مختلف ہے۔ آج کا قرآن آسمانی تختی سے مختلف ہے۔

) آسمانی تختی اور قرآن ، بعد کے ترجمے پر مشتمل تھا، اور پہلا ترجمہ مختلف تھا۔ b

اس طراح اصل تلاوت جو آسمانی تختی کی نمائدگی کرتے ہوئے دی گئی جبکہ وہ حقیقت میں ایک جھوٹ تھا۔ یہ کون سی  ہے؟ تختی (آسمان میں) سورۃ 85: 20-22 میں قیاساً نادانی سے درز نہیں بھری۔

مسلم اعتراض 6:  شاید طبری نے بغیر تنقید دے معلومات اکٹھی کی ہوں

جواب: جبکہ ہمارے اس قیاس کا کوئی ثبوت نہیں، دوسرے تین سوانح نگاروں نے بھی یہ لکھا ہے ۔ ان میں سے دو باکل طبری سے پہلے تھے، اس طرح، حتیٰ کی طبری بغیر تنقید کے پایا گیا، جسکا معنی خیز اثر نہیں ہو گا جبکہ ہم دوسرے تین تک رکھتے ہیں ۔ کوئی مسلمان ہو سکتا ہے کہ یہ خواہش کرے کہ  محمد اور سارے شروع دے سوانح نگار بڑے خرابی پیدا کرنے والے تھے، لیکن بہت سارے ذرائع ان کی درستگی کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں ۔ مجموعی طور پر، طبری نے ہر چیز بغیر تنقید قبول نہیں کی ۔ مثلاً جلد 1 صفحہ 532 پر وہ آدم اور حوا کی بہت ساری روایات کا ذکر کرتا ہے کہ اس نے توریت کے لوگوں سے سیکھا تھا۔ وہ ان میں سے کئی کا حوالہ دیتا ہے۔ لیکن وہ کہتا ہے کہ ان احادیث کے معتبر کے بارے محتاط ہے۔ (بربرا فرے سٹوواسر کی کتاب "قرآن میں عورتیں، روایاتاور ان کی تفسیر" صفحہ 28 سے حوالہ)

سنی مسلم اعتراض 7: مستند احادیث براہ راست اس کا ذکر نہیں کرتیں۔

جواب: بخاری جلد 3 کتاب 19 سبق 42 عدد 173 صفھہ 100، جلد 3 کتاب 19 سبق 43 عدد 176 صفحہ 101، صفحہ 6 کتاب 60 سبق 286-287 عدد 385-386 صفحہ 364-365، ابوداود جلد 1 کتاب 2 سبق 481 عدد 1401 صفحہ 369 ذکر کرتیں ہیں کہ مکہ والے کیسے جھکے جب انہوں نے سورۃ 53 سنی۔ کوئی اور بیان کرنا مشکل ہے کہ اس سورۃ کے بارے کیا تھا کہ غیر قومیں اس سورۃ کے آگے جھک گئیں، جبکہ وہ کسی دوسرے کے سامنے نہیں جھکتے تھے۔ قرآن خود بھی " شیطان کی سرگوشی کا ذکر کرتا ہے۔

سنی مسلم اعتراض 8: شیخ البانی نے اپنی کتاب "روایات کی ترسیل کرنے والی گاڑی" میں کہا ہے کہ شیطانی آیات دو ثبوت منتقلی کا ایک بُرا سلسلہ ہے (انسعد)

 

جواب:

http://answering islam.org/respenses/saifullah/ serser.htm says,”

کہتی ہے کہ البانی کے نقطہ نظر کے ساتھ، کہ ان دنوں میں بُری طرح جھوٹا جانا جاتا تھا کیونکہ اسناد پر غلط ہے حتیٰ کہ اس نے ایک کتاب میں لکھ کہ یہ ٹھیک ہے اور دوسری کتاب میں لکھ کہ یہ غلط ہے! کتاب " البانی بے نقاب" سیف الدین احمد ابن امرالاسلام کی لکھی ہوئی بہت ساری مثالیں دیتا ہے۔ یہ بتاتی ہے: یہ ایک مشہور حدیث شیخ (محمد نصیر الدین الالبانی) نئی اسلامی تحریک مشہور سلفیہ کا تشریحاتی مطالعہ ہے ۔ مصنف نے واضح طور پر البانی اختلاف کو واضح کیا ہے اصلی عرب کے کام ترکیب کرتے ہوئے (ثنا کدت الالبانی الواحدۃ)  یردن کے مشہور عالم حدیث شیخ حسن ابن علی الصدف کے ذریعے کیا۔

مسلم اعتراض 9: غیر مسلم محمداور اسلام پر تنقید کرتے ہیں۔

جواب:  یہ واقعہ غیر مسلموں بنایا ہوا نہیں، بلکہ مسلمانوں کا خود تحریر کیا ہوا ہے۔ یہ وفادار مسلمان آج کے مسلمانوں کی طرح شروع کے ذرائع تک رسائی رکھتے تھے۔ آپ کی بند ہوتی آنکھیں آپ کے خیال کی صرف تنقید ہیں۔ کیونکہ یہ آپ کے خیالات کی تنیقد ہیں یہ سچائی کی پیروی کرنے کے لیے چاہے جانے کے لائق نہیں۔ چونکہ مسیحی کلیسیا سچائی دکھانے کا دعویٰ کرتی ہے، کسی جھوٹے نبی کی نشاندہی کرنا ہمارا فرض ہے۔ ہم ی نفرت یا خود غرض کاموں سے نہیں کرتے، بلکہ محبت اور مسلمانوں کو ملنے کی خواہش کر کے ان کو جھوٹی تعلیم سے توبہ کرنے اور حقیقی یسوع کی طرف مڑنے اور ہمارے ساتھ خوشی میں ملنے، سچے خدا کے ساتھ آسمان میں ملنے کے لیے۔

آپ یہاں سے کہاں جاتے ہیں؟

مسلماں خود متفق نہیں رہے کہ آیا کہ قرآن میں شیطانی الفاظ اصلاً موجود تھے۔

متبادل 1:  محمد نے حقیقت میں اللہ کی بیٹیوں کی شفاعت کے بارے میں کہا؟ پھر کم از کم وہ چیز جو محمد کو، خاص عرصے کے لیے ایک جھوٹا نبی بناتی ہے۔

متبادل 2:  کیا محمد نے کبھی بھی شیطانی آیات نہیں کہیں؟ پھر سارے شروع کے سوانح نگار ایک غلط پر متفق ہو گئے کہ محمد ایک جھوٹا نبی ہے کچھ اپنی مرضی سے کسی کی پیروی کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ، اگر رہنما شیطانی باتیں کہے وہ یقین کر لیتے ہیں۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر آپ شیطانی آیات کے بارے میں کیا کہتے ہو وہ جو شیطان نے سرگوشیاں کیں اور محمد نے وصول کیں؟ ۔

بلا لحاظ:  اسلام سکھاتا ہے کہ اللہ اجازت دیتا ہے کہ اس کے کلام کو کسی بھی طرح مروڑا جائے اور اللہ اجازت دیتا ہے کہ اسکے وفادار پیرکار جھوٹے طریقے  سچے طریقوں کی طرح سیکھیں۔ کیونکہ یہ قرآن سورۃ 43: 44-45 میں اشارہ کرتا ہے کہ سارے پہلے نبیوں کا ایک ہی پیغام تھا، درحقیقت سورۃ 41: 43 کہتی ہے کہ محمد کی طرف کچھ بھی نہیں بھیجا گیا جو پہلے انبیا کی طرف بھیجا گیا تھا۔ اس طرح ایک مسلمان کے لیے یا تو:

 اللہ نے اسکے بد عنوان پیغام کو اس سے افضل ہونے دیا۔(a

 یا یہ قرآن ہے جو ایک بد عنوان پیغام ہے۔ (b

یا تو اسلام کہتا ہے کہ اللہ اپنے کلام کے بڑے عقائد کو تبدیلیوں سے با اعتماد محفوظ نہیں کر سکتا۔

خدا پھر بھروسہ کرنے والے بنو

خدا قادر مطلق اپنے کلام کو محفوط کرنے کی طاقت رکھتا ہے لوگوں کو خدا پر بھروسہ کرنا چاہیے۔

خدا پر بھروسہ کرنے والے بنو کہ خدا نے اپنے کلام کو محفوظ  رکھا۔

سورۃ 5: 46-48 کہتی ہے کہ یسوع نے توریت ( اپنے وقت میں) کی تصدیق کی خدا نے مسیحیوں اور یہودیوں کو کلام بھیجا، حتیٰ کہ محمد کے وقت میں اور اس سے سچائی آزما سکتے ہو۔ سورۃ 3: 48 اور 5: 110-111 ظاہر کرتیں ہیں کہ یسوع کے پاس توریت اور انجیل تھی۔ یسوع کے شاگردوں کو الہام ملا۔ بائبل میں یسعیاہ 59: 21، 40: 8 ، زبور 119: 89 ظاہر کرتی ہے کہ خدا کا کلام ہمیشہ تک قائم رہتا ہے۔ اس کا کلام اصلاً غلطی کے بغیر ہے اسکا کا کلام بے خطا  ( بغیر کسی غلط معنی کے) آج محفوظ ہے (یسعیاہ 55: 11 ، 1 پطرس 1: 23-25 ، زبور 119: 89، 91، 144، 160)۔

بھروسہ رکھنے والے بنو خدا چاہتا ہے کہ تم سچائی کی پیروی کرو:

اور اسکے پاس آؤ۔ خدا چاہتا ہے کہ کوئی ہلاک نہ ہو حزقی ایل 18: 23 ، 32 ؛ 2پطرس 3: 9 سب خداوند یسوع کی انجیل کی فرمانبرداری کے لیے۔ جیسے کہ 2 تھسلُنکیوں 1: 8۔

فانی بدن پر بھروسہ کرنے والے نہ بنو:

دوسروں پر توکل کرنے والے نہ بنو جو تمہیں خدا سے موڑ دیں گے۔ حقیقت میں اپنی ہی نظر میں عقلمند نہ بنو۔ (امثال 3: 7)۔ بلکہ اپنے پورے دل سے خداوند پر توکل کر اور اپنے فہم  پر تکیہ  نہ کر اپنی سب راہوں میں اسے پہچان اور وہ تیری رہنمائی کرے گا"۔ (امثال 3: 5-6) کیا تم خدا پر بھروسہ رکھتے ہو اگر تم اسے تسلیم کرو تو وہ تمہارے راستے سیدھے بنائے گا۔

یسوع پر بھروسہ کرو: وہ خدا کی طرف سے اور خدا کا کلام محفوظ ہے۔ خدا چور یا لوٹنے والا نہیں (یوحنا 10: 8-10) بھروسہ کرو کہ یسوع نے اپنی جان بطور فدیہ دے دی ۔(متی 20: 28)  گناہ کی قربانی ادا کی (رومیوں 8: 3) اسکے صیلب پر خون بہانے سے (عبرانیوں 10: 19)۔

خداوند یسوع پر ایمان لاؤ:

تو تم نجات پاؤ گے (اعمال 16: 31) "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو کوئی اس پر ایمان لائے گا شرمندہ نہ ہو گا " (رومیوں 10: 11) اس لیے خدا پر بھروسہ کرو، اور بھروسہ کرو کہ وہ آپ کی رہنمائی کرے گا۔ وہ برداشت نہیں کرتا کہ اس کے کلام میں بگاڑ پیدا ہو، اس لیے بائبل معتبر ہے۔ یسوع کی طرف اپنی زندگی لگاؤ اور وہ تمہیں امن اور اطمینان دے گا۔