اسلام اور سائنس

بھولے ہوئے

 تناظرات

 یاد دلائے  گئے

اشاعت جون 2007

 

 

 

 

 

 

 

 

عام طور پر الفاظ الجبرا، القلی، الکوحل، اصطراب، نفتھا اور زرقون کیا ہیں۔ یہ تمام انگریزی الفاظ ہیں جو عربی اور فارسی الفاظ سے لیے گئے ہیں جو پیچھے 700-1150 عیسوی میں سنے جاتے تھے۔ جب بلا شبہ سائنس کی تعلیم کے لیے مرکز مشرق وسطیٰ تھا۔

ہو سکتا ہے کہ بہت سارے لوگ سائنس اور ریاضی میں مشرقوسطیٰ کے اہم حصے سے بے خبر ہوں۔ منداجہ ذیل مختصراً ان حصول میں سے چند کا تذکرہ ھے اور پھر قرآن میں سے سائنسی بیانات کی تفتیش  ہے۔ تاہم، کیونکہ بہت ساری طبی ترقیاں ہوئی ہیں، ان کا یہاں ذکر نہیں کیا گیا۔ انہوں نے اپنی گفتگو کو فضیلت بنایا ہے۔

ابتدائی مشرق وسطائی سائنس

یہاں تک ابتدائی قدیم بابل کے غیر سامی باشندسوں کے پاس(3500تا2000 قبل مسیح) تمام جانوروں کی درجہ بندی تھی وہ جانتے تھے ۔ بڑے کیڑے جیسے لوکٹس پرندوں کے ساتھ، بحثیت اڑنے والی مخلوق کے ڈھیر لگاتے تھے۔ ابتدائی مصری اور بابلی لوگ یہ جاننے کے لیے کہ کب پودے لگانا شروع کرنے ہیں ستاروں کو اپنی معاونت میں راہنمائی کے لیے استعمال کرتے تھے۔ ابتدائی لوگوں کے پاس بہت زیادہ ترقی بحری جہاز بنانے، مویشیوں کی گلہ بانی کرنے اور سرجری، یہاں تک کہ سر کی سرجری کے لیے تھی۔ مصری 2500 قبل مسیح سے ٹوتھ پیسٹ استعمال کرتے تھے۔ ان کی تین بہت اہم سائنسی خدمات تحریر، کاشتکاری، اور دھات کاری تھیں۔

ہو سکتا ہے کہ یہ ابتدائی دنیا کا سب سے بڑا حصول اسکندریہ کی عظیم لائبریری تھا۔

اس وقت یہاں ایک ہی مقام پر اصلی جلدوں کی یا دنیا کے بہت زیادہ ادب کی نقول ہزاروں سینکڑوں میں اکھٹی تھیں۔

ابتدائی انجینرنگ اور فن

مصریوں کے پاس 2500 ق م سے بحری جہاز تھے۔ فن تعمیر میں ان کے پاس مصر اور سامی اور بابل کے مستطیل منزل بہ منزل ستونوں میں متاثر کرنے والی مخروطی تعمیریں تھیں۔

بہت کم لوگ اس حقیقت کو جانتے ہیں کہ شمال مشرق کا ایران ایک بہت بڑا ڈیم تھا، جو 1800 ق م میں قائم ہوا۔ اس نے دوسرے بڑے واقعات کو ہندوستان اور ایران میں بڑی منتقلی کی راہ فراہم کی۔

یمن میں ایک ڈیم نے شیبا کی سلطنت کو ایک اہم زرعی کاروباری مرکز بنا دیا، حتیٰ کہ یہ بھی محمد سے ایک صد ی قبل ٹوٹی۔ یہاں تک کہ جھیلیں، اُونچائی/ واقع گھاٹیاں، اور بڑی بڑی فصیلوں والے شہر آج بھی متاثر کرنے والے ہیں۔ در حقیقت، اگر اسوری شہر نینوہ کو جو پہلی جنگ عظیم میں فرانس اور جرمنی کے درمیان تھا، اس کا کوئی بھی رخ آسانی سے زیر کرنے کے لائق نہیں تھا۔

آخر کار یہ زیرکر لیا تاھ، لیکن صرف جھ قوثر دریا میں طغیانی آئی اور دیوار کا حصہ ٹوٹا۔

ابتدائی مشرق وسطیٰ کا ریاضی

یہ زرعی کارنامے ریاضی کی مدد کے بغیر نہیں کیے جا سکتے تھے۔ پرانے بابلیوں کی 60 کی گنتی کے نظام کی ایک اساس تھی۔ وہ مشترک اعداد پسند کرتے تھے؛ مثال کے طور پر وہ × a  تقسیم کرتے۔ پُرانے بابل لوگ پہلے لوگ تھے جو الجرے کے یک کالمی اور  بطور

  دوکالمی مسائل کو استعمال کرتے تھے ۔ ایک لوح جوپلائمپٹن 322 کہلاتا تھا فیثا غورثین اعداد

کا ٹیبل ہے (2               ) بابلیوں نے اعددا کے مربعوں کو بطور مستطیل کے کھینچنے کے شمار کیا اور پھر رقبے کو گنا۔ ریاضیاتی طور پر، وہ مربعوں سے بلند تر ہو کر کسی چیز کے ساتھ کام نہیں کر سکتے تھے۔ جبکہ بابلیوں کی "پائی" کے لیے مختلف قیمتیں تھیں، ان میں سب سے ٹھیک3۰125 تھی۔ دسویں صدی کے عربی ریاضی دان ابوالوفا ریاضی کے علم کے بڑے ٹرانسمیٹروں کو دستکار اور فنکار تجویز کرتے۔مصری تکونیات بابلیوں سے برتر تھی  یا 3۰16 کی قیمت کو سمجھتے تھے۔ یہ 3۰14159 سے     کیونکہ مصری ایک زاویہ اور

دور نہیں ہے۔ اس کو اینڈ پا پرس میں (سی۔1650 ق م) اور ماسکوپاپرس میں تقریباً ایک وقت میں تحریر کیا گیا۔ بہت ساری مصری عمارت کے 3 سے 4 رخ تھے، لیکن وہ کھبی بھی فیثا غورث کے نظریے کو جاتے نہیں تھے۔ سائنس اور ریاضی ابتدائی وقتوں میں بہت "عملی" تھے۔ شاید اسی سبب سے، کافی شدت سے، کسی کو بھی صفر کا تصور نہ تھا جب تک یہ ہندوستان میں دریافت نہ ہوا۔

 

الجبرا کہاں سے آیا؟

ہم جانتے ہیں پہلا الجبری مسئلہ رہنڈپاپرس میں محفوظ کیا گیا۔ جس کی نقل مصری قبالہ نویس احمس نے (سی۔1650 ق م) میں کی۔ یہ موسی سے بہت پہلے ہے۔ جبکہ یونانی بنیادی طور پر جومیٹری میں دلچسپی لیتے تھے۔ چینی مسیح کی پیدائیش سے قبل دو کالمی مساواتوں کو حل کر سکتے تھے، اور ہندووں (سی۔628-1150 عیسوی میں) نے بہت سے مرکبی جملوں کو حل کیا بغداد میں محمد ابن موسیٰ الخوازمی (سی۔825 عیسوی)، ابوکمال (سی۔900عیسوی) اور الکارنی(سی۔ 1100 عیسوی) نے مزید الجبرے کو ترقی دی۔ انہوں نے یورپی علم ریاضی کو متاثر کیا جب چیسٹر کے رابرٹ نے الخوازمی کی کتاب تقریباً1140 عیسوی میں ترجمہ کیا جو لاطینی میں لائبر الگوریزم کہلائی جس کا عام مطلب "الخوازمی کی کتاب" ہے۔ لفظ الگوریزم بعد میں الگورتھم اور الجبرا بن گیا۔

ابو سینا (ابن سینا)  عیسوی

 

رومی اور جدید ادوار کے درمیان ایک بہت زیادہ اہم طبیب ہونے کے علاوہ، وہ ایک سائنس دان، فلسفی، اور منطقی بھی تھا جس نے تقریباً 200 کام لکھے۔ انگلستان کے البرٹ میگنس نے اس سے بہت کچھ سیکھا۔

ایوروس( ابوالوحید محمد بن احمد ابن محمد ابن روشد) 1126-1198عیسوی

ارسطو کا متعرف، اُس نے غربت اور پریشانی کے بارے میں بہت کچھ کہا کہ یہ مسلمانوں کے عورتوں کے ساتھ سلوک کے سبب آئی۔

ایومیپس (ابن جیرول) 1021-1058 عیسوی

یہودی سینی فلسفی جو ارسطو کے اصول سے منسلک ہوا۔

الکارنی

سی-1100عیسوی

الجبرے میں حصہ ڈالا

 مندرجہ ذیل فہرستوں میں چند مژرق وسطی اور مسلمان سائنس دانوں اور ریاضی دانوں مشہور نام ہیں

 

کیمیا/ الکیمیائی اور طبیعات

بغداد میں عباسی خلیفوں کا 9ویں یا 10ویں صدی الکیمیا کا ایک سکول تھا۔ ابتدائی عربی الکیمیائی کام کے کچھ حصے عربی اور کچھ شامی میں تھے۔ خالد بن یزید( 708 عیسوی میں فوت ہوا)، ایک منظم شامی راہب میرینیم، کتاب، کتاب الفہرست کے مطابق الکیمیا پر پہلا مسلمان لکھاری تھا۔ بہت سارے الکیمیا دانوں کی ذہانت کو سیسے اور دوسرے مادوں کو سونا بنانے میں ضائع کیا گیا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے کیمیا کے بارے بھی بہت ساری چیزیں پائیں۔ یہاں کچھ شاندار فارسی اور عربی کیمیا دان ہیں۔

جابر (جابر بن حیان)

سی۔760 سی۔815

عرب کیمیا دان جس نے سرکی کو کشید کیا اور نائٹرک ایسڈ بنایا۔ اس نے دھاتوں کی ہیت کو بدلنے کے لیے تحقیق شروع کی اور مائع پارے

کے ساتھ اس کو ریشہ دار بنایا۔ وہ اس قدر ذی اثر تھا کہ کیمیا کا عرف عام نام "جابر کا فن " تھا

ابن الہیشم

اس نے دباؤ،مقناطیس، اور عدسوں کا مطالعہ کیا، اس نے کہا کہ ہم اپنی آنکھوں کے ساتھ روشنی کے ٹکرانے کے سبب دیکھتے ہین نہ کہ شعاعیں دیکھاتی ہیں۔

قتھل دین

1236 عیسوی

قوس قزح کی شکل کی وضاحت کی۔

رازی ( الرازی)

سی۔ 850- سی۔ 925

فارسی کیمیا دان( اور ماہر فلکییات) جس نے پلاسٹر آف پیرس بنایا اور اِ ثمد کا مطالعہ کیا

پاکستان کے عبدالسلام

1926-1996 عیسوی

اس نے 1979 کو علم طبیعیات میں نوبل پرائز لیا۔ وہ ایک قادیانی تھا، جن کے لیے بہت سارے مسلمان یہ کہتے ہیں کہ وہ غیر مسلم بدعتی تھے۔

 

 

جابر (جابر بن حیان) (808 عیسوی، 193 ہجری کو فوت ہوا) ایک درویش صوفی تھا جس کی دمشق میں ایک لیبارٹری تھی۔ اس نے 200 کتابیں لکھیں جس میں 80 کیمسٹری کی کتابیں تھیں، اس میں رنگوں کی برانگیخیتی اور وزن اور پیمائش پر مشتمل کتابیں تھیں۔ درحقیقت، دوسری عرف عام کیمسٹری "جابر کے فن" پر تھیں۔ اس نے ایک پیمانہ بنایا تھا جو تقریباً گرام

 کا وزن کر سکتا تھا۔ جبکہ بعد میں آنے والے یورپی سوچتے تھے کہ یہ مادہ جو پہلے کے

تمام آتشگیر مادوں کا جزو خیال کیا جاتا تھا اس مواد میں شامل کیا گیا ہے جب وہ جلائے گئے۔ جابر نے ٹھیک طور پر یہ سمجھا کہ ایک جلے ہوئے مادے کی توانائی اپنے پیچھے ناقابل احتراق خاک چھوڑ کر چلی گئی۔ اس نے آگ کی مزاحمت کرنے والا کاغذ ایجاد کیا، کپڑوں کے لیے مائع رنگ اور پانی کو رد کیا۔ واضع طور اگرچہ اس کا کچھ قریبی کہنا تھا، اس نے نصیحت کی کہ کیمیائی لیبارٹریز شہروں سے دور ہونا چاہیے۔

عزالدین الجلدا  (1360 عیسوی 762 ہجری میں فوت ہوئے) نے کیمیکل کے رد عمل کے نتیجے میں خطرناک گیسوں سے حفاظت  کے لیے ماسک کا مشورہ دیا، اور یہ پانی تبخیر اور تکثیف کے ذریعے بہترین خالص ہو سکتا ہے۔ صابن میں کیمکل کے اضافے سے صابن میں کاسٹک محفوظ کیا جا سکتا ہے جو کپڑوں کو نقصان سے بچانے کے لیے ہے۔ وہ سونے کو چاندی سے یہ جان کرالگ کر سکتا تھا کہ محض سونا نائٹرک ایسڈ میں تحلیل نہیں ہو سکتا اس نے بہت ساری کتابیں لکھیں، ان میں سے دو 1000 صفحات سےزیادہ تھیں۔

ابن الہیشم (1039 عیسوی 431 یجری میں فوت ہوا) کو ظالم اور سنکی خلیفہ نے الحاکم دریائے نیل کے فوائد پر بات کرنے کے بعد مصرآنے کی دعوت دی۔ اس نے آب پاشی کے کام کو بہتر بنانے کے لیے اسوان پر ڈیم بنانے کی رائے دی۔ اگرچہ الحاکم نے اس کو رد کر دیا۔ الہیشم نے ماحولیاتی دباؤ اور وزن پر زمینی مقناطیسیت کی بھی تفتیش کی۔ اس نے روشنی اور بصیرت کے ساتھ عکس کا مطالعہ کیا۔ الہیشم نے تقریباً 200 کتابیں لکھیں، 47 ریاضی، اور 58 انجینرنگ پر۔

ابن الہیشم کا طبیعات کا سارا علم اس سے زیادہ قابل قدر تصور کیا جاتا ہے۔ جو کچھ محمد نے آگ اور موسموں پر اپنی احادیث میں کہا۔ یہاں پر ہے جو صحیح مسلم والیم۔1 کتاب۔4 عدد۔1290 صفحہ۔ 302 کہتی ہے۔ "ابر ہریرہ سے روایت ہے: اللہ کے پیغمبر نے فرمایا۔ آگ نے آقا سے شکایت کی، 'اے خداوند' میرے کچھ حصے دوسروں نے مکمل طور پر تباہ کر دیئے ہیں، اس لیے اس کو دو سانس لینے کی اجازت دی گئی، پہلی سانس سردیوں میں اور دوسری سانس گرمیوں میں۔ اسی لیے آپ شدید گرمی ( گرمیوں میں) اور شدید سردی (سردیوں میں) دیکھتے ہیں۔

علم ہیت/ اجرام فلکی کا مطالعہ

اگر انگریزی نام ایلدیران، ریجل، اٹک، الجیرب، کاف ،دینب، صدر اور 40 سے زیادہ دوسرے ستارے عربی گردونواح کے ناموں میں ظاہر ہوتے ہیں۔ یہ اس لیے ہے کہ وہ موجود ہیں۔ صحرا کی تاریک رات میں نظر آتے ہیں، عرب ماہر فلکیات نے بہت سارے ستارے تلاش کیے جو پہلے جانے نہیں جاتے تھے۔ عربیوں اور فارسیوں نے بہت ساری سائینسوں کا مطالعہ کیا، لیکن انہوں نے اپنی خاص دلچسپی علم فلکیات میں ظاہر کی ۔

 مندرجہ ذیل کچھ اور مشہور ماہر فلکیات ہیں۔

ابوماشور البومظر

805-885 عیسوی

لاطینی وچ ترجمہ کرن دا کم کردا، جس میں فلورس اسٹولوجی شامل ہے، جہاں سے ہن لفظ نجوم حاصل کرتے ہیں۔ جس سے سوچا جاتا ہے کہ دنیا اسوقت خلق ہوئی جب سات سیارے ستاروں کے ساتھ ٹکرائے

الخوازمی

سی-825 عیسوی

بہت طرح سے ایک فلسفی تھا، اس نے نجوم پر پہلی تعریفی کتاب شائع کی۔

محمد بن بیگر البتنی (البٹجیتیس)

سی 850-929 ء

پٹولمی کے کچھ جدول درست کیے۔ مشرق واسطیٰ میں سائنز اور ٹینجنیٹس متعارف کیے۔ میلانچتھن نے لاطینی میں اسکا کام شائع کیا

ایومپیس (ابن جابرول)

1021-1058ء

یہودی سپانوی فلسفی جو ارسطو کو پسند کرتا تھا

مسلمانوں کا پہلا علم فلکیات، بعد میں روک دیا گیا۔ ابن ماجہ والیم 5 عدد 3726 صفحہ 149 میں ذکر ھے کہ فلکیات کے متعلق سیکھنا جادو کے متعلق سیکھنے کے برابر ھے۔ سنان ابوداود والیم 2 سبق 148 عدد 3896 صفحہ 1095 انگریزی ترجمہ یہی کہتی ھے صرف "آسٹرولوجی" کا لفظ استعمال کرتی ھے۔ اس کے بعد مسلمانوں نے یونانی کام جمع کیا۔، فارسی، (ایرانی) اور حتیٰ کہ ہندوستانی ماہر فلکیات کا کام بھی جمع کیا۔ پہلی یونانی کتاب فلکیات کے متعلق (کہا جاتا ھے ہرمیس ٹرسمیجیٹس نے لکھی) کا عربی ترجمہ 742ء میں ہوا (125 ہجری) عباسی خلیفہ المنصور کے پاس فارسی (ایرانی) ماہر فلکیات نوابحظ تھا اور بعد میں اسکا بیٹا اسکے ساتھ رہا۔ دوسرے ماہرین فلکیات، علی ابن، عیسال آسٹرولیبی جس سے ہم اپنی اصطلاح اسٹرولیب حاصل کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ آلہ عرض اور اضافی عرض ناپنے کے لیے پہلی دفعہ 100-300 ق م  میں ایجاد کیا گیا۔

772ء میں المنصور نے ابویحیٰ الطبرق کا عربی ترجمہ کیا جو کلوڈیس پٹولمی کا کام تھا اور دوسری یونانی کتابیں کی المنصور نے، شہنشاہ بیزنٹین سے درخواست کی۔ محمد الغرازی نے بھی ایک ہندوستانی فلکیات کی کتاب کا ترجمہ کیا۔ ان بنیادوں پر الخوازمی نے "فلکی اجسام کی علامتی پوزیشن کی معلومات" کا جدول لکھا (سی 825ء )

بعد میں عربوں اور فارسیوں نے تقریباً وہی علم دہرایا۔ فخرالدین الرازی (606 ہجری 1209ء میں مر گیا) نے ارسطو کے دعویٰ کہ ستارے ساکن ہیں اور زمین سے ہم فاصلہ ہیں اس کے ساتھ ساتھ یہ دعویٰ کہ تمام فلکی اجسام کی حرکات ایک جیسی ہیں، اور ہم شکل ہیں پر سوالات کیے۔ یہ کوپرنکس سے 300 سال پہلے تھا جو 1543ء میں مر گیا۔ سیارے (کتاب کا نام) صفحی 12 کہتی ہے کہ 275 ق م میں سیحوس کے آرسٹارچس نے کہا آسمان سورج کے گرد گھومتے ہیں، نہ کہ زمین کے، بلکہ ہر کوئی جب اس نے "جانا" واپس آ گئے کہ پاگل تھا۔ دوسرے یونانیوں اور رومیوں نے سکھایا کہ زمین گول ھے اور لوگ زمین کی مخالف سمت میں رہتے ہیں بمطابق لیکٹینیس (260-325ء) آسمانی ادارے کتاب 3 سبق 24 صفحہ  94۔ سورۃ 2: 258 کہتی ھے ابرہام نے کہا اللہ مشرق سے سورج طلوع کرتا ھے اور بے تشریح بتوں کا للکارتا ھے سورج مغرب سے طلوع کرو سورۃ 2: 258 پا الرازی کی تفسیر نے کہا کہ سورج کا مشرق یا مغرب سے طلوع ہونے کا کوئی ثبوت نہیں، کیونکہ ہو سکتا ھے جو ہرکت ہر دیکھتے ہیں حقیقی حرکت سے مختلف ہو۔

التبنی / بتنی یہ دمشق سے تھا، نے دریافت کیاکہ ایک شمسی سال کتنا لمبا ہوتا ھے، صرف درست قیمت کو نہ پاتے ہوئے 2 منٹ 22 سیکنڈ سے۔ مسلمانوں نے بڑی رصدگاہیں تعمیر کیں، لیکن اسوقت کی دنیا کی سب سے بڑی رصد گاہ، مرگاہ میں 1258 میں تعمیر کی گئی۔(657 ہجری)

دوسرے نقطوں میں گرہنوں کا منبع الطبری جلد 1 صفحہ 236 میں دیا گیا ھے (بالکل غلط طریقے سے)

مختلف الہامی تحریریں اور علم فلکیات

مسیحت، یہودیت اور اسلام سب سکھاتے ہیں کہ خدا ہے جس نے کائنات ایک ترتیب سے تخلیق کی ھے، زبور 19: 1-2 کہتا ہے "آسمان خدا کا جلال ظاہر کرتا ھے اور زمین اسکی دستکاری دکھاتی ہے"۔ قرآن یوسف علی کا ترجمہ 14: 53 کہتا ہے۔ ہم جلد ہی اپنی نشانیاں (بہت دور تک) علاقوں میں (زمین کے) دکھائیں گے اور ان کی اپنی جانوں میں (روحوں) ظاہر نہ وہ جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" تاہم ایک دوسرے ترجمے میں یہ کہتا ہے۔ ہم انسان کو اپنی نشانیاں افق میں /کائنات میں دکھائیں گے اس کے ساتھ ساتھ ان کے اندر بھی۔ جہاں تک کہ وہ قائل نہ ہو جائیں کہ یہ مکاشفہ حقیقت ہے۔ این جے داود کا ترجمہ زمین کے متعلق ایک جسی بات کرتا ہے جبکہ احمدی مولوی شہر علی کا ترجمہ کہتا ہے"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زمین کے تمام حصوں میں نشانیاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"(اصل میں اٹلکس) زمین کے (دور ترین) کی بجائے ، یہ کہتا ہے "کائنات" محمد فاروق اعظم ملک کے ترجمے میں۔ اربری کا ترجمہ درمیانی رسائی لیتا ھے اور کہتا ہے "افق میں ہماری نشانیاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" قطع نظر، اگرچہ قرآن کہتا ہے کہ اللہ کیہں دور فطرت میں نشانیاں دکھاتا ہے۔

ٹوٹنے والے ستارے

"سب سے نچلے آسمان میں چراغ (ستارے) ہیں، ہم نے ایسے (چراغ) (بطور) گولےبدروحوں کو بھگانے کے لیے بنائے ہیں، اور ان کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ سزا تیار کی ہے"۔ سورۃ 67: 5 "ان ستاروں کی تخلیق کے تین مقاصد ہیںیعنی آسمان کی سجاوٹ کے لیے، ابلیس کو مارنے کے لیے گولے اور مسافروں کے لیے رہنمائی کے لیے۔ پس اگر کوئی مختلف تفسیر حاصل کرنے کی کوشش کرے تو وہ غلطی پر ہے اور صرف فضول کوشش کرتا ہے" ۔ بخاری والیم 4 کتاب 5 سبق 3 قبل از نمبر  صفحہ 282۔

ٹوٹنےوالے ستارے بعض اوقات شیطان کو کھلبلی میں ڈالنا ھےجو آسمانی رازوں کو سننے کی کوشش کرتا ھے۔ صحیح مسلم والیم 1 کتاب 4 عدد 902 اور حاشیہ 647 صفحہ 243۔

ٹوٹنے والے ستارے بُرے فرشتوں کو مارنے کے لیے ہیں اس سے پہلے کہ وہ سنے ہوئے راز پھیلا دیں۔ اگرچہ بعض اوقات بُرے فرشتے ،ان کو مارنے سے پہلے بھی پیشن گوئیاں بتا دیتے ہیں ۔ ابن ماجہ والیم 1 کتاب 1 عدد 194 صفحہ 110۔

ایک مسلمان نے تجویز دی کہ ہو سکتا ھے کہ میں یہاں غلط ہوں، کیونکہ اس کے مطالعے میں کوئی برے فرشتے نہ ہوں،صرف جن  ہوں میں کسی چیز کو اسلام میں یا مسیحت کے متعلق غلط نہیں کہنا چاہتا، اور میں تصحیح کہ حوصلہ افزائی کرتا ہوں لیکن یہاں ترجمے میں حقیقتاً لفظ فرشتے ہیں"۔ یہاں اقتباس ہے: 194۔ ابوہریرہ سے روایت ہے۔ کہ نبی پاک نے کہا، جب اللہ نے آسمان پر ایک مسلے کا فیصلہ کیا تر فرشتوں نے فرمانبرداری میں اس کے کلام کے آگے اپنے پر جھکا دیئے (اور ایک آواز پیدا کی) جیسے ایک لوہے کی زنجیر چٹان پر ماری جاتی ہے پھر بھی، جب ان کے دلوں پر خوف چھا گیا تو انہوں نے کہا یہ کیا ہے جو تمہارے خداوند نے کہا ہے؟ وہ کہتے ہیں "سچائی" اور وہ سر بلند اور عظیم ہے (القرآن 34: 23) نبی پاک نے کہا، پھر انہوں نے یہ الفاظ سنے، اپنے کانوں کو حالات کے مطابق کچھ سننے کے لیے اور نیچے والوں کو بتانے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ یہ اکثر ستارہ ٹوٹنے پر ہوتا ہے اس سے پہلے وہ نیچے والوں سے سرگوشی نہ کر دیں۔ وہ اس (کلام) کو جو پیشن گوئی یا جادو کو اپنے منہ میں رکھتے ہیں اور مزید براں (یہ ٹوٹنے والا ستارہ) ان کو نہیں مارتا جب تک وہ دوسروں کو نہ بتائیں۔ پھر وہ اس میں ایک سو جھوٹ کا اضافہ کر لیتے ہیں۔ صرف لفظ جو آسمان سے کان میں پڑتا ہے سچ ہوتا ہے۔ ابن ماجہ والیم 1 کتاب 1 عدد 194 صفحہ 110۔ یہ بالکل " فرشتے ہیں جو بُرے فعل کر رہے ہیں" ٹوٹے ہوئے ستارے جنوں پر حملہ ہیں۔ صحیح مسلم والیم 4 کتاب 24 عدد 5538 صفحہ 1210۔ ستارے شیطان کے خلاف حفاظت کرتے ہیں۔ الطبری والیم 1 صفحہ 223۔

جغرافیہ

عربوں کے کچھ مشہور نقشہ نگار یعقوبی ابن ہکل، مسعودی، مقدسی / موکداسی، ابن خردھا بھی سمارا کا، ابکری، یاکت اور ابلغد،الدّرسی بڑا ذہین جغرافیائی دان تھا ۔ انگلینڈ، پیرس، یورپ میں فرانس اور چین میں کنیٹن کو عجلت / پھرتی دکھانے والا تھا۔ دسویں صدی میں ایک سپانوی رب ملاح نے بحراوقیانوس کو لبسن سے پار کرنے کی کوشش کی۔ دوسرے لفظوں میں زمین ایک بڑی مچھلی پر بیٹھی ہوئی ہے۔ بمطابق ایک مسلمان مورخ الطبری والیم 1 صفحہ 220 (923-839ء) بالکل اسی طرح یورپی۔ فارسی، اور عرب سر کرنے کے لیے بہت سی فرضی کہانیاں رکھتے ہیں۔

سورۃ 18: 85-86 بیان کرتی ہے کہ حکمران ذوالقرنین نے ڈوبتےسورج کا پیچھا کیا اور پایا کہ یہ گدلے (کیچڑ) پانی کے چشمہ میں چلا گیا۔ اب ہم جانتے ہیں کہ سورج کیچڑ والے پانی میں نہیں جاتا۔ لیکن ابتدائی مسلمان یقین رکھتے تھے یہ حقیقتاً ہے۔ الطبری والیم 1 صفحہ 234 اور دوسری مثال، "[دھوالقارنییان] کی گواہی ہے کہ ڈوبتا سورج اپنی آرام گاہ کی جگہ یعنی کالے اور پتلے دلدلی مٹی کے تالاب میں جاتا ہے بمطابق الطبری جلد 5 صفحہ 173-174۔

احادیث میں آب وہوا کا مطالعہ

" ابوہریرہ سے روایت ہے: اللہ کے رسول نے کہا: آگ نے خداوند کے سامنے یہ کہتے ہوئے شکایت کی، اے مالک، میرے کچھ حصوں نے دوسروں کو جلا کر بھسم کر دیا ہے۔ پس اسے دو اخراج کی اجازت دی گئی ایک اخراج سردیوں میں دوسرا اخراج گرمیوں میں۔ یہ وجہ ہے کہ تم کو (گرمیوں میں) شدید گرمی لگتی ہے اور (سردیوں میں) شدید سردی۔ صحیح مسلم والیم 1 کتاب 4 عدد 1290 صفحہ 302۔

خوراک کی سائنس

جبکہ کچھ مسالہ جات مشرق وسطیٰ میں اگتے ہیں، مشرق وسطٰٰی اشیا میں مسالوں کی بڑی مقدار کے لیے، آسمان رسائی رکھتا ہے۔ حتیٰ کہ آج بھی مشرق وسطیٰ کی خوراک کے مختلف اور دلچسپ ذائقے ہیں صدیوں کے تجربے اور کئی مسالوں کے ساتھ۔ کافی سب سے پہلے مشرق وسطیٰ میں استعمال ہوئی۔ چونکہ کافی ایک محرک ہے مسلمان علما نے پہلے اس کے استعمال کو لعنت قرار دینے کی کوشش کی۔ عام مسلمانوں نے دعویٰ کیا کہ کافی اچھی ہے کیونکہ یہ رات کو ان کو نماز کے لیے بیدار رکھتی ہے۔ اور مسلسل علما نے اپنے ذہن تبدیل کر لیے۔

تلوار کی دستکاری

جاپان سے باہر، دنیا میں اعلی ترین تلواریں 'شام' سے دمشقی تلواریں ہیں۔ وہ "انیلنگ" فولاد کے راز کی وجہ سے گرتے گرتے سنبھلیں جو بڑی آہستگی سے ٹھنڈا ہوتا اور مضبوط ہو سکتا ہے۔ اور زیادہ تیز ہو سکتی ہیں اس فولاد کی بہ نسبت جو تیزی سے ٹھنڈا ہوتا ہے۔ بد قسمتی سے، جس طریقے یہ تیار ہوئی ہے  سرخ گرم تلوار کو "ایک مضبوط غلام کے جسم میں" گھسیڑنا مشکل کام ہے۔

جنگی توپیں

مسلمانوں نے کم از کم  10 بار قسطنطینی قطب 670ء میں شروع کر کے گھیرا، مگر اسے کھبی فتح نہ کر سکے یہاں تک کہ انہوں نے ایک چینی تاجر سے مقابلہ کیا۔ تاجر نے 10000 بازنطینی باشندے فروخت کرنے کی پیش کش کی جو شہر میں بارود کے دھوکے میں تھا۔ وہ نیچے آئے کیونکہ انہوں نے کہا کہ ان کے پاس پہلے ہی یونانی توپ ہے ایک موٹی کشید پیٹرولیم جو پانی پر تیرتی اور آگ لگا سکتی ہے۔ پس تاجر نیچے آیا اور بارود 000'80 سے 000'100 تک بیچ دیا اور

29-30 مئی 1453ء کو دیواریں گرا دیں۔ ترکوں نے اگلے سات سالوں میں یونان کو فتح کر لیا، اور 1526 سے 1528 تک شمال کی طرف آسٹریا تک لڑے۔

فلسفہ اور منطق

جب شہنشاہ زینو نے نیسٹورین مسیحیوں کو شام سےنکال دیا تو ان میں سے بہت سے ایران اور بعد میں بغداد میں آباد ہو گئے۔ ان میں سے بہت سوں نے طبی علم اور ارسطو کے فلسفے دونوں کو محفوظ کر لیا۔ ایوپمپیس ابن جبرول بھی مشہور تھا (1021-1058ء) ایک یہودی فلسفی تھا وہ مسلم سپین میں رہتا تھا۔ وہ ارسطو کے فلسفے کا وکیل تھا۔ مسلمان ایواوز ( 1126-1198ء)ایک عظیم ارسطو کے فلسفے کا حمایتی تھا۔

تھامس ایکنس (1125-1274ء) بھی ارسطو کے فلسفے کا حمایتی تھا اس نے ایک "ایوروستوں کے خلاف دانشمندی کے انوکھے پن پر" کام لکھا۔ مُلا صدرا نے ایرانکا فلسفی خیال تبدیل کر دیا  افلاطون سے ارسطو کے خیال میں، اسی طرح جو یورپ میں تھامس ایکنس نے کیا۔

علم کائنات۔۔ خدا کے وجود کے متعلق

کالم دلیل

کالم کا عربی میں معنی "ابدی" ہے اور کالم کائناتی دلیل ایک اکیسی دلیل جو مسیحی اور مسلمان دونوں خدا کے وجود کو ظاہر کرنے کے لیے ٹھیک طرح سے استعمال کر سکتے ہیں۔ نورم گیسلہ " مسیحی حمایت کے بیکر انسائیکلوپیڈیا میں صفحہ 399 میں اسے ایک افقی (سیدھا خط)س شکل کی کائناتی دلیل کہتا ہے"۔

1) ہر چیز جو پیدا ہوئی ہے اس کی تخلیق کا مقصد ہے۔

2) کائنات جب تخلیق ہوئی ایک وقت تھا۔

3)اس لیے کائنات اپنی تخلیق کا کوئی مقصد رکھتی ہے۔

کچھ دھریوں کے اقرار نامہ میں یہ ہے جو کہنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بالکل نیستی / فنا سے کچھ پیدا کیا جا سکتا ہے۔

لوگ جو کالم دلیل کی حمایت کرتے ہیں بشمول مسلمان الفارابی، الغرالی، ایویسینا اور مسیحی ماہر علم الہیات بونا وینچر۔ ایک مسیحی فلسفی جس نے اس دلیل میں کمزوری دیکھی ہے تھامس ایکنس تھا۔ اس نے غور کیا کہ یہ ممکن ہے کہ خدا گزشتہ ابدیت سے کائنات  تکلیق کر سکتا ہے۔ اور فطرت میں سے کوئی ثبوت نہیں آیا کہ خدا نے کائنات وقت کے کسی مقام پر پیدا کی یا ہمیشہ کے لیے۔ ایکنس نے کائناتی دلیل کے جدید ترین ترجمے کی حمایت کی۔ ہر چیز جو مقصد رکھتی ہے (وقت میں پیدا ہوئی یا گزشتہ ابدیت سے) کسی چیز سے پیدا ہوئی۔

علم حیوانات

تمام براعظموں کے لوگ اسوقت بہت وہمی ہیں چینیوں کے اپنے (اچھے) اژدھا ہیں۔ یورپیوں کے اپنے بُرے اژدھا ہیں۔ سمندری دیو اور یونانی قصوں کا فرضی سانپ۔ عربوں کے یونی کارن اور فرضی پرندے ہیں۔ بڑے سے بڑا جانور ہاتھی انڈوں کے ساتھ حتی کہ 'جن' اٹھانے سے انکار کرتے تھے۔ جن آگ سے بنے ہیں جبکہ لوگ مٹی سے بنے ہیں۔   تاہم، مگارئیم لاگ کچھ جنوں کا خاندان رکھتے ہیں۔ ابوداود والیم 3 عدد 5088 حاشیہ 4436 صفحہ 1415-1416۔

ٹڈیاں مچھلیوں کی چھنگیوں سے پیدا ہوئی ہیں۔ بمطابق حدیث ابن ماجہ والیم 4 عدد 3227 صفحہ 409۔

سورۃ 16: 69 کہتی ہے کہ سہد کی مکھیوں کے پیٹوں /جسموں  کے اندر شربت /مشروب (شہد ) ہے جو مردوں کی شفا کے لیے اچھا ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے نشانی ہے۔ حقیقت میں شہد مکھی کے جسم سے باہر بنتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ شہد کے چھتے بناتی ہیں۔ مویشی، رطوبتوں اور خون سے دودھ بناتے ہیں سورۃ 16: 66۔ زمیں پر یا فضا میں اڑنے والے جانوروں میں سے کئی جانور انسانوں کی طرح آبادی نہیں بناتے سورۃ 6: 38 کے مطابق۔

ایک مادہ بندر( بندریا)کو غلط (غیر قانونی) جنسی مباشرت کرنے کی وجہ سے مار دیا گیا۔ بخاری والیم 5 کتاب 58 سبق 26 عدد 188 صفحہ 119۔ یہ واضح نہیں کہ کس کا قانون نا جائز تھا۔ مباشرت کے دوران اپنے "جذیات"کے انحصار پر ایک بچہ اپنی ماں کی نسبتباپ سے زیادہ مشابہت رکھتا ہے۔ بخاری والیم 5 کتاب 58 سبق 49 عدد 275 صفحہ 190، بخاری والیم 6 کتاب 60 سبق 8 عدد 7 صفحہ 9۔

ناک

ابوہریرہ سے روایت ہے نبی نے کہا اگر تم سے کوئی نیند سے جاگے اور وضو کرے تو اسے اپنی ناک میں تیں بار پانی ڈال کر دھونا چاہیے اور پھر پریشر سے باہر نکالنا چاہیے، کیونکہ شیطان ساری رات ناک کے اوپر والے حصے میں ٹھہرا رہتا ہے۔

قدیم آج بھی قائم ہے جیسے حاشیہ 1 ظاہر کرتا ہے۔ یہ کہپتا ہے کہ "ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ شیطان حقیقتاً ناک کے اوپر والے حصے میں ٹھہرا رہتا ہے اگرچہ ہم نہیں سمجھ سکتے کیسے،کیونکہ اس کا تعلق اندیکھی دنیا سے ہے جس کے متعلق ہم اللہ کے رسول کے بتانے کے سوا نہیں جانتے"۔ بخاری والیم 4 کتاب 54 سبق 10 عدد 516 صفحہ 328۔  شیطان لوگوں کی ناک میں رات گزارتا ہے صحیح مسلم والیم 1 کتاب 2 عدد 462 صفحہ 153 میں بھی ہے (حاشیہ 450 بھی) سنن نساء والیم 1 عدد 91 صفحہ 167۔

ناک اور منہ سے پانی سوں سوں کر کے نکالنے سے، گناہ باہر آتے ہیں ابن ماجہ والیم 1 کتاب 1 عدد 282 صفحہ 163۔ مگر یقین کرلیجیے  کہ آپ کا ناک طاق گنتی میں صاف ہوا ہے۔ ابن ماجہ والیم 1 کتاب 1 عدد 406 صفحہ 228۔

اپنے ناک سے چھنیک کر پانی نکالنا اور حیض کا جاری ہونا شیطان کے افعال ہیں ابن ماجہ والیم 2 عدد 969 صفحہ 87۔ جبکہ حیض کا جاری ہونا، ہو سکتا ہے حفضان صحت کا نتیجہ ہو، عورتوں کو کہتے ہوئے فطری طور پر ،ہر مہینے شیطانی کام کرتیں ہیں، کچھ زیادہ ہے۔ اس معاملے میں سآستی شیطان کی طرف سے ہے بمطابق بخاری والیم 8 کتاب 73 سبق 125 عدد 242 صفحہ 157 اور والیم 8 کتاب 73 سبق 128 عدد 245 صفحہ 158۔

بُری نظر اور قرآن

"بُری نظر ایک حقیقت ہے" بخاری والیم 7 کتاب 71 سبق 36 عدد 636 صفحہ 427، والیم 7 کتاب 71 سبق 86 عدد 827 صفحہ 538۔ بخاری والیم 4 کتاب 55 سبق 9 عدد 590 صفحہ 386۔ "بُری نظر سچ ہے" ابن ماجہ والیم 5 عدد 3506-3507 صفحہ 39۔ موتاہ مالک 1۔1۔50 "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بُری نظر کا اثر ایک حقیقت ہے"  صحیح مسلم والیم 3 کتاب 24 عدد 5426 صفحہ 1192۔ صحیح مسلم والیم 3 کتاب 24 عدد 5424-5427 صفحہ 1192۔

 عامر بن ربیعہ سے کہا گیا کسی کو بُری نظر کا دیا کرو۔ ابن ماجہ والیم 5 عدد 3508 صفحہ 40۔

تاہم، محمد کے بال بُری نظر کے لیے علاج تھے۔ بخاری والیم 7 کتاب 72 سبق 65 عدد 784 صفحہ 518۔ جب محمد اپنے بال کاٹتا تو اسکے صحابہ ہر لٹ کو محفوظ کرنے کے لیے پکڑنا چاہتے محمد نے لوگوں میں بال بانٹ کر سخاوت کر دی۔ صحیح مسلم والیم 2 کتاب 7 عدد 2991-2994 صفحہ 656-657۔

جادو ٹونا (چھو منتر) بُری نظر کا علاج ۔ ابن ماجہ والیم 5 عدد 3510-3511 صفحہ 41، والیم 5 عدد 3512 صفحہ 42۔

چھو منتر نظر بد کے خلاف جائز ہے اور بچھو کے خلاف بھی۔ ابن مجہ والیم 5 عدد 3513-3518 صفحہ 42-42۔

محمد نے نظر بد کے خلاف اور زہریلے کیڑوں کے خلاف چھو منتر استعمال کیا۔ ابن ماجہ والیم 5 عدد 3525 صفحہ 48۔ محمد نے عائشہ کو نظر بد کے علاج کے لیے چھو منتر دیا۔ صحیح مسلم والیم 3 کتاب 24 عدد 5445-5447-5450 صفحہ 1196۔ محمد نظر بد پر یقین رکھتا تھا اور اس کے خلاف جادو منتر ہے الطبری والیم 39 صفحہ 134۔

اونٹ کی گردن پر ثابت ہار نہ رہنے دین ملک نے خیال کیا کہ یہ نظر بد کا سبب بنتا ہے موتاہ 39۔1249۔

محمد متفق تھا  کہ جادو منتر( قرآن کا)بُری نظر سے حفاظت کرتا ہے موتاہ مالک 3۔2۔50، 4۔2۔50۔

قرآن کی آخری دو سورتیں ( 113 اور 114) نظر بد کے خلاف دی گئیں ابن ماجہ والیم 5 عدد 3517 صفحہ 41۔

تاہم، سورتیں 113-114 ابن مسعود کے قرآنی ترجمہ میں غائب ہیں(فہرست صفحہ 57) یہ غلطی اتفاقی نہیں۔ یہ روایت کی گئی کہ ابن مسعود نے کہا۔" جادو منتر کی سورتیں( 113 اور 114) خدا کی کتابیں نہیں"۔

(www.Answering-Islam.org/Quran/Text/distortion.html.)

ابن مسعود محمد کا ذاتی سیکرٹری تھا محمد نے لوگوں کو بتایا کہ ابن مسعود اور تین دوسرے آدمیوں سے قرآن سیکھیں۔ بخاری والیم 6 کتاب 60 سبق 8 عدد 521 صفحہ 486-487 ۔

طاق چیزیں

آنکھوں میں سُرمے کی سلائی طاق (گنتی) میں لگانا چاہیے۔ ابن ماجہ والیم 5 عدد 3498 صفحہ 35-36۔

آنکھوں میں سُرمے کی سلائی یا عقیق (پتھر) سے طاق دفعہ لگانا چاہیے۔ ابوداود والیم 1 عدد 35 صفحہ 8۔

صفائی کرنے کے لیے پتھروں کی تعداد طاق بہتر ہے صحیح مسلم والیم 2 کتاب7 عدد 2982 صفحہ 655۔ اپنے آپ کو طاق تعداد میں ڈھیلوں سے صاف کرو۔ سنن نساء والیم 1 عدد 43 صفحہ 149۔ جب فطرت کے بلاوے کا جواب دو، تو اپنے آپ کو ہمیشہ طاق تعداد عقیق (پتھر) سے پونچھو۔ صحیح مسلم والیم 1 کتاب 2 عدد 458-463 صفحہ 153-154۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابوداود والیم جلد 1 سبق 21 عدد 40 صفحہ 10 کے مطابق تین پتھر لیں۔ محمد باقاعدگی سے طاق تعداد میں کجھوریں کھاتا تھا بخاری والیم 2 کتاب 15 سبق 4 عدد 73 صفحہ 38۔

نماز میں یقین کر لو کی تم نے اسے طاق رکوع میں ختم کیا یے صحیح مسلم والیم 1 کتاب 4 عدد 1632-1644 صفحہ 362-364۔

رات کو طاق رکوع میں نماز ادا کرو۔ سنن نساء والیم 2 عدد 1295 صفحہ 392، والیم 2 عدد 1711-1712 صفحہ 398، والیم 2 عدد 1714-1718 صفحہ 399-400، جلد 2 عدد 1759 صفحہ 415۔

اپنا ناک طاق تعداد میں صاف کرو۔ ابن ماجہ جلد 1 کتاب 1 عدد 406 صفحہ 228۔ ایک مسلمان کو طاق تعداد میں نمازیں پڑھنی چاہیے۔ ابن ماجہ جلد 2 عدد 1169-1170 صفحہ 194-195۔

دوسرے اوھام (وہم)

"وہ جس نے صبح کو سات کھجوریں (زمین کی) ان دو لاوا مسطحوں کے درمیان کھائیں اسے شام تک کو زہر نقصان نہیں دیتا"۔ صحیح مسلم والیم 3 کتاب 21 عدد 5080 صفحہ 1129، جلد 3 کتاب 21 عدد 5081۔ بھی جادو کا اضافہ کرتی ہے۔ کچھ جادو ٹھیک ہیں کیونکہ سید بن جُبیر نے جادو کا عمل کیا جب اسے بچھو نے ڈنگ کیا اس نے یہ محمد سے سیکھا تھا۔ صحیح مسلم جلد 1 کتاب 1 عدد 625 صفھہ 141۔ محمد نے انصار لوگوں کو بچھو کے ڈنک کا زہر دور کرنے کے لیے ایک جادو منتر دیا صحیح مسلم والیم 3 کتاب 24 عدد 5442-5444-5448 صفحہ 1192-1196۔ تعویزوں کا کام، لیکن یہ مسلمان استعمال نہیں کرتے۔ ابن ماجہ والیم 5 عدد 3530 صفحہ 51-52۔

ایک افعی اسقاط حمل کا باعث بنتا ہے۔ ابن ماجہ جلد 5 عدد 3534-3535 صفھہ 54-55۔ پہلے دائیں پاوں میں جوتا پہنیں اور بائیں پاؤں سے پہلے جوتا اتاریں۔ ابن ماجہ جلد 5 عدد 3616 صفحہ 95-96 موتاہ مالک 15۔7۔48۔ جو آدمی قابل اعتبار چیزیں کہتا ہے وہ نا گہانی مصیبت میں اس دن یا رات مبتلا نہ ہو گا ابو داود والیم 3 عدد 5069 صفحہ 1411۔ اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ پیو، کیونکہ شیطان اپنے بائیں ہاتھ سے کھاتا پیتا ہے۔ موتاہ مالک6۔4۔49۔ جبرائیل فرشتے نے محمد کے ہر جادو منتر اور اس خلاف بُری نظر کا ایک جادو منتر سے علاج کیا۔ ابن ماجہ والیم 5 عدد 3533 صفحہ 47۔

اس نبی کی پیروی کرنا جس پر جادو ہو گیا تھا

محمد پر ایک دفعہ جادو ہو گیا۔ عائشہ سے روایت ہے "نبی پر جادو ہو گیا اس طرح اس نے رومانوی حرکت شروع کر دی۔ جو چیز وہ کر رہا تھا جیسے وہ حقیقتاً نہیں کر رہا۔ ایک دن اس نے اللہ سے کافی دن دعا مانگی اور پھر اس نے کہا۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ اللہ نے مجھے وہی بھیجی ہے کہ مجھے اپنا علاج کیسے کرنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" بخاری جلد 4 کتاب 54 سبق 10 عدد 490 صفحہ 317، جلد 4 سبق 34 عدد 400 صفحہ 267، جلد 8 سبق 56 عدد 89 صفحہ 56-57، جلد 8 سبق 59 عدد 400 صفحہ 266-267، جلد 7 سبق 47-49 عدد 658-660 صفحہ 441-443۔

اس بیان میں مزید تفصیلات ہیں۔ عائشہ کا بیان ہے: نبی نے ایسا کرنا جاری رکھا اور ایسی خیالاتی تصویریں کافی دیر بناتا رہا۔ کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ جنسی رشتہ بنائے ہوئے ہے اور حقیقت میں اس نے ایسا نہ کیا۔ ایک دن اس نے مجھ سے کہا اے عائشہ! اللہ نے مجھ سے ایک مسلہ کے متعلق مجھے ایک ہدایت کی ہے جس کے متعلق میں نے اس (اللہ) سے پوچھا ہے۔ دو آدمی میرے نزدیک آئے ایک میرے پاؤں کے نزدیک بیٹھ گیامیرے سر کے نزدیک بیٹھے ہوئے نے (میری طرف اشارہ کرتے) پوچھا، اس آدمی کے ساتھ کیا غلط ہوا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا یہ جادو کے اثر میں ہے۔ پہلے نے پوچھا کس نے اس پر جادو کیا؟ دوسرے نے جواب دیا لُبید بن عاصم نے"۔ پہلے نے پوچھا کونسا مواد (استعمال ہوا ہے)؟ دوسرے نے جواب دیا نر کجھور کے درخت کے زر دانے سے ایک کنگھی سے اور کنگھی اس کے بالوں سے رگڑی گئی دھرواں کنویں میں پتھر کے نیچے رکھا گیا تھا"۔ پھر نبی اس کنویں پر گیا اور کہا "یہ وہی کنواں ہے جو خواب میں مجھے دکھائی دیا تھا۔ اس کے کجھور کے درخت کی چاٹیاں شیطان کت سروں کی طرح دکھائی دیتی ہیں اور اس کا پانی حینا آمیزشکی طرح دکھائی دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" عائشہ نے اضافہ کیا۔"(جادو گر) لُبید بن عاصم بنی زُریک سے ایک آدمی تھا اور یہودیوں کا ایک دوست تھا"۔ بخاری جلد 8 کتاب 73 سبق 56 عدد 89 صفحہ 57، بخاری جلد 8 کتاب 73 سبق 59 عدد 400 صفحہ 266۔ لبید بن ایلعاصم یہودی نے محمد پر جادو کر دیا۔ صحیح مسلم والیم 3 کتاب 24 عدد 5428-5429 صفحہ 1192-1193، صحیح مسلم والیم 2 کتاب 4 عدد 1888 صفحہ 411۔ اگر کوئی جان بوجھ کر محمد سے ایک جھوٹ منسوب کرتا ہے ان کا مسکن جہنم ہے۔ ابن ماجہ جلد 5 عدد 3754 صفحہ 161-162 ، ابوداود والیم 3 سبق 1372 عدد 3643 صفحہ 1036 بھی دیکھیے۔ پس ایک مسلمان کو محتاط رہنا چاہیے اگر وہ کہتا ہے تمام بخاری پر اعتبار اور پیروی کرنی چاہیے۔ صحیح مسلم ، ابن ماجہ جو زیادہ مسلم شریعت کی بنیاد قائم کرتی ہیں۔" ایک جو چاندی کے برتن میں پیتا ہے اپنے پیٹ میں جہنم کی سزا لاتا ہے"۔ موتاہ مالک 11۔7۔49۔

اللہ پر یقین کا مطلب ہے وہم پرستی کو پیچھے چھوڑنا!

حوالہ جات

البخاری، صحیح بخاری۔( مترجم محمد محسن خان، المکتب السلافیات المدینۃ المنورہ (تاریخ نہیں) (9 جلدیں) بہت مستند سآنی احادیث کا مجموعہ)

 

اربری، اے۔ جے۔ قرآنی تفسیر۔ مکمیلاں پبلشنگ کمپنی انچارج 1955۔ (یوسف علی کا ترجمہ اس سے زیادہ درست اور نمایاں ہے)

 

کیمبل، ولیم۔ قرآن اور بائبل تاریخ اور سائنس کی روشنی میں۔ عرب ورلڈ منسٹریز۔ 1986، 2002 ڈاکٹر کیمبل ایک طبی ڈاکٹر ہے جو عربی بولتا ہے اور شمالی افریقہ میں کام کیا ہے۔

 

انسائیکلو پیڈیا برٹنیکا۔ انسائیکلوپیڈیا برٹنیکا انچارج 1958 جلد 13، صفحہ 7-8۔

 

القرآن کے معنوں کا انگریزی ترجمہ: انسانیت کے لیے رہنمائی۔ مصنف محمد فاروق اعظم ملک۔ انسٹٹیوٹ آف اسلامک نالج 1997۔

 

گیسلر، نارمن ایل۔ بیکر انسائیکلوپیڈیا آف کرسچن اپالوجیٹکس۔ بیکر بُکس 1999۔

 

دی ہولی قرآن۔ (عربی اور انگلش) ریوازڈ اینڈ ایڈٹڈ پریزیڈنیسی آف اسلامک ریسرچ، آئی ایف ٹی اے، کال اینڈ گائیڈنیس۔ کنگ فہد ہولی قرآن پرنٹنگ کمپلیکس۔ (انگریزی مترجم عبدالہہ یوسف علی تھا) 1410 ہجری۔

 

مسلم، امام۔ (انگریزی میں عبداللہ حمید صدیقی نے پیش کیا) صحیح مسلم ۔ انٹرنیشنل اسلامک پبلشنگ ہاوس۔ (تاریخ نہیں) 4 جلدیں۔

 

نساء امام ابوعبدالرحمان احمد۔ سنن نساء مترجم محمد اقبال صدیقی قاضی پبیکشینز 1994۔ سگان، کارل، جو ناتھن نورٹن لیونارڈ۔ پلاٹس۔ ٹائم لائف بُکس 1969۔

 

سنن ابوداود۔ مترجم احمد حسن شاہ محمد اشرف پیبلشرز 1984-1996۔

 

انن ابن ماجہ۔ مترجم محمد طفیل انصاری۔ قاضی پبیکشینز ذوالقرنین چیمبرز (پاکستان) 1994۔

وان نوسڑانڈز سائنٹیفک انسائیکلوپیڈیا، ایڈیشن۔ ڈی۔ وان نوسٹرانڈ کمپنی، انچارج 1968۔

 

ورلڈ بُک انسائیکلوپیڈیا۔ ورلڈ بُک انچارج۔ 1990

 

یحیٰ بن شرف النبوی، امام ابوذکریا (تالیف کرنیوالا)، ایس، ایم، مدنی عباسی (مترجم) ریاض السلحین۔ انٹرنیشنل اسلامک پیبلشنگ ہاوس۔ (تاریخ نہیں) (2 جلدیں)

 

http://www.nlm.nih.gov/hmd/arabic

عربی / فارسی دنیا میں ادویاتی تاریخ کے لیے۔

 

http://www.masnte.org/history.asp?id=1033

 

http://www.iad.org/Islam/medicine.html